أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الْقِرَائَةِ فِي الْمَغْرِبِ صحيح حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ أُمِّهِ أُمِّ الْفَضْلِ قَالَتْ خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَاصِبٌ رَأْسَهُ فِي مَرَضِهِ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ فَقَرَأَ بِالْمُرْسَلَاتِ قَالَتْ فَمَا صَلَّاهَا بَعْدُ حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي أَيُّوبَ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أُمِّ الْفَضْلِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَرَأَ فِي الْمَغْرِبِ بِالْأَعْرَافِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ كِلْتَيْهِمَا وَرُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَرَأَ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّورِ وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ كَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى أَنْ اقْرَأْ فِي الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ وَرُوِيَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّهُ قَرَأَ فِي الْمَغْرِبِ بِقِصَارِ الْمُفَصَّلِ قَالَ وَعَلَى هَذَا الْعَمَلُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَبِهِ يَقُولُ ابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ و قَالَ الشَّافِعِيُّ وَذَكَرَ عَنْ مَالِكٍ أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يُقْرَأَ فِي صَلَاةِ الْمَغْرِبِ بِالسُّوَرِ الطِّوَالِ نَحْوَ الطُّورِ وَالْمُرْسَلَاتِ قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا أَكْرَهُ ذَلِكَ بَلْ أَسْتَحِبُّ أَنْ يُقْرَأَ بِهَذِهِ السُّوَرِ فِي صَلَاةِ الْمَغْرِبِ
کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل
مغرب کی قرأت کا بیان
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ان کی ماں ام الفضل رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ہماری طرف اس حال میں نکلے کہ آپ بیماری میں اپنے سرپر پٹی باندھے ہوئے تھے، مغرب پڑھائی توسورۂ 'مرسلات' پڑھی، پھر اس کے بعد آپ نے یہ سورت نہیں پڑھی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جاملے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام الفضل کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جبیر بن مطعم ، ابن عمر، ابوایوب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور نبی اکرمﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے مغرب میں دونوں رکعتوں میں سورۂ اعراف پڑھی، اورآپ سے یہ بھی مروی ہے کہ آ پ نے مغرب میں سورۂ طورپڑھی ، ۵- عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کولکھا کہ تم مغرب میں قصار مفصل پڑھاکرو،۶- اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ مغرب میں قصار مفصل پڑھتے تھے،۷- اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ ابن مبارک، احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں،۸- امام شافعی کہتے ہیں کہ امام مالک کے سلسلہ میں ذکرکیاگیا ہے کہ انہوں نے مغرب میں طور اورمرسلات جیسی لمبی سورتیں پڑھنے کو مکروہ جاناہے۔ شافعی کہتے ہیں: لیکن میں مکروہ نہیں سمجھتا، بلکہ مغرب میں ان سورتوں کے پڑھے جانے کو مستحب سمجھتاہوں۔
تشریح :
۱؎ : صحیح بخاری میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے 'إن آخر صلاة صلاّها النبي ﷺ في مرض موته الظهر' بظاہران دونوں روایتوں میں تعارض ہے، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ جوصلاۃ آپ نے مسجدمیں پڑھی اس میں سب سے آخری صلاۃظہرکی تھی،اورآپ نے جوصلاتیں گھر میں پڑھیں ان میں آخری صلاۃمغرب تھی، لیکن اس توجیہ پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے کہ ام الفضل کی روایت میں ہے ' خرج إلينا رسول الله وهو عاصب رأسه' (رسول اللہ ﷺ ہماری طرف نکلے آپ سرپرپٹی باندھے ہوئے تھے) جس سے لگتاہے کہ یہ صلاۃبھی آپ نے مسجدمیں پڑھی تھی،اس کا جواب یہ دیا جاتاہے کہ یہاں نکلنے سے مرادمسجدمیں جانانہیں ہے بلکہ جس جگہ آپ سوئے ہوئے تھے وہاں سے اٹھ کر گھروالوں کے پاس آنامراد ہے۔
۱؎ : صحیح بخاری میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے 'إن آخر صلاة صلاّها النبي ﷺ في مرض موته الظهر' بظاہران دونوں روایتوں میں تعارض ہے، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ جوصلاۃ آپ نے مسجدمیں پڑھی اس میں سب سے آخری صلاۃظہرکی تھی،اورآپ نے جوصلاتیں گھر میں پڑھیں ان میں آخری صلاۃمغرب تھی، لیکن اس توجیہ پر ایک اعتراض وارد ہوتا ہے کہ ام الفضل کی روایت میں ہے ' خرج إلينا رسول الله وهو عاصب رأسه' (رسول اللہ ﷺ ہماری طرف نکلے آپ سرپرپٹی باندھے ہوئے تھے) جس سے لگتاہے کہ یہ صلاۃبھی آپ نے مسجدمیں پڑھی تھی،اس کا جواب یہ دیا جاتاہے کہ یہاں نکلنے سے مرادمسجدمیں جانانہیں ہے بلکہ جس جگہ آپ سوئے ہوئے تھے وہاں سے اٹھ کر گھروالوں کے پاس آنامراد ہے۔