جامع الترمذي - حدیث 3036

أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَابٌ: وَمِنْ سُورَةِ النِّسَاءِ حسن حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي شُعَيْبٍ أَبُو مُسْلِمٍ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ قَالَ كَانَ أَهْلُ بَيْتٍ مِنَّا يُقَالُ لَهُمْ بَنُو أُبَيْرِقٍ بِشْرٌ وَبُشَيْرٌ وَمُبَشِّرٌ وَكَانَ بُشَيْرٌ رَجُلًا مُنَافِقًا يَقُولُ الشِّعْرَ يَهْجُو بِهِ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ يَنْحَلُهُ بَعْضَ الْعَرَبِ ثُمَّ يَقُولُ قَالَ فُلَانٌ كَذَا وَكَذَا قَالَ فُلَانٌ كَذَا وَكَذَا فَإِذَا سَمِعَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ الشِّعْرَ قَالُوا وَاللَّهِ مَا يَقُولُ هَذَا الشِّعْرَ إِلَّا هَذَا الْخَبِيثُ أَوْ كَمَا قَالَ الرَّجُلُ وَقَالُوا ابْنُ الْأُبَيْرِقِ قَالَهَا قَالَ وَكَانُوا أَهْلَ بَيْتِ حَاجَةٍ وَفَاقَةٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَالْإِسْلَامِ وَكَانَ النَّاسُ إِنَّمَا طَعَامُهُمْ بِالْمَدِينَةِ التَّمْرُ وَالشَّعِيرُ وَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا كَانَ لَهُ يَسَارٌ فَقَدِمَتْ ضَافِطَةٌ مِنْ الشَّامِ مِنْ الدَّرْمَكِ ابْتَاعَ الرَّجُلُ مِنْهَا فَخَصَّ بِهَا نَفْسَهُ وَأَمَّا الْعِيَالُ فَإِنَّمَا طَعَامُهُمْ التَّمْرُ وَالشَّعِيرُ فَقَدِمَتْ ضَافِطَةٌ مِنْ الشَّامِ فَابْتَاعَ عَمِّي رِفَاعَةُ بْنُ زَيْدٍ حِمْلًا مِنْ الدَّرْمَكِ فَجَعَلَهُ فِي مَشْرَبَةٍ لَهُ وَفِي الْمَشْرَبَةِ سِلَاحٌ وَدِرْعٌ وَسَيْفٌ فَعُدِيَ عَلَيْهِ مِنْ تَحْتِ الْبَيْتِ فَنُقِبَتْ الْمَشْرَبَةُ وَأُخِذَ الطَّعَامُ وَالسِّلَاحُ فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَانِي عَمِّي رِفَاعَةُ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي إِنَّهُ قَدْ عُدِيَ عَلَيْنَا فِي لَيْلَتِنَا هَذِهِ فَنُقِبَتْ مَشْرَبَتُنَا وَذُهِبَ بِطَعَامِنَا وَسِلَاحِنَا قَالَ فَتَحَسَّسْنَا فِي الدَّارِ وَسَأَلْنَا فَقِيلَ لَنَا قَدْ رَأَيْنَا بَنِي أُبَيْرِقٍ اسْتَوْقَدُوا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَلَا نَرَى فِيمَا نَرَى إِلَّا عَلَى بَعْضِ طَعَامِكُمْ قَالَ وَكَانَ بَنُو أُبَيْرِقٍ قَالُوا وَنَحْنُ نَسْأَلُ فِي الدَّارِ وَاللَّهِ مَا نُرَى صَاحِبَكُمْ إِلَّا لَبِيدَ بْنَ سَهْلٍ رَجُلٌ مِنَّا لَهُ صَلَاحٌ وَإِسْلَامٌ فَلَمَّا سَمِعَ لَبِيدٌ اخْتَرَطَ سَيْفَهُ وَقَالَ أَنَا أَسْرِقُ فَوَاللَّهِ لَيُخَالِطَنَّكُمْ هَذَا السَّيْفُ أَوْ لَتُبَيِّنُنَّ هَذِهِ السَّرِقَةَ قَالُوا إِلَيْكَ عَنْهَا أَيُّهَا الرَّجُلُ فَمَا أَنْتَ بِصَاحِبِهَا فَسَأَلْنَا فِي الدَّارِ حَتَّى لَمْ نَشُكَّ أَنَّهُمْ أَصْحَابُهَا فَقَالَ لِي عَمِّي يَا ابْنَ أَخِي لَوْ أَتَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتَ ذَلِكَ لَهُ قَالَ قَتَادَةُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّ أَهْلَ بَيْتٍ مِنَّا أَهْلَ جَفَاءٍ عَمَدُوا إِلَى عَمِّي رِفَاعَةَ بْنِ زَيْدٍ فَنَقَبُوا مَشْرَبَةً لَهُ وَأَخَذُوا سِلَاحَهُ وَطَعَامَهُ فَلْيَرُدُّوا عَلَيْنَا سِلَاحَنَا فَأَمَّا الطَّعَامُ فَلَا حَاجَةَ لَنَا فِيهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَآمُرُ فِي ذَلِكَ فَلَمَّا سَمِعَ بَنُو أُبَيْرِقٍ أَتَوْا رَجُلًا مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ أُسَيْرُ بْنُ عُرْوَةَ فَكَلَّمُوهُ فِي ذَلِكَ فَاجْتَمَعَ فِي ذَلِكَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ قَتَادَةَ بْنَ النُّعْمَانِ وَعَمَّهُ عَمَدَا إِلَى أَهْلِ بَيْتٍ مِنَّا أَهْلِ إِسْلَامٍ وَصَلَاحٍ يَرْمُونَهُمْ بِالسَّرِقَةِ مِنْ غَيْرِ بَيِّنَةٍ وَلَا ثَبَتٍ قَالَ قَتَادَةُ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمْتُهُ فَقَالَ عَمَدْتَ إِلَى أَهْلِ بَيْتٍ ذُكِرَ مِنْهُمْ إِسْلَامٌ وَصَلَاحٌ تَرْمِهِمْ بِالسَّرِقَةِ عَلَى غَيْرِ ثَبَتٍ وَلَا بَيِّنَةٍ قَالَ فَرَجَعْتُ وَلَوَدِدْتُ أَنِّي خَرَجْتُ مِنْ بَعْضِ مَالِي وَلَمْ أُكَلِّمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ فَأَتَانِي عَمِّي رِفَاعَةُ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي مَا صَنَعْتَ فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اللَّهُ الْمُسْتَعَانُ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ نَزَلَ الْقُرْآنُ إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ وَلَا تَكُنْ لِلْخَائِنِينَ خَصِيمًا بَنِي أُبَيْرِقٍ وَاسْتَغْفِرْ اللَّهَ أَيْ مِمَّا قُلْتَ لِقَتَادَةَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا وَلَا تُجَادِلْ عَنْ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا يَسْتَخْفُونَ مِنْ النَّاسِ وَلَا يَسْتَخْفُونَ مِنْ اللَّهِ إِلَى قَوْلِهِ غَفُورًا رَحِيمًا أَيْ لَوْ اسْتَغْفَرُوا اللَّهَ لَغَفَرَ لَهُمْ وَمَنْ يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَى نَفْسِهِ إِلَى قَوْلِهِ إِثْمًا مُبِينًا قَوْلَهُ لِلَبِيدٍ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَرَحْمَتُهُ إِلَى قَوْلِهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا فَلَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالسِّلَاحِ فَرَدَّهُ إِلَى رِفَاعَةَ فَقَالَ قَتَادَةُ لَمَّا أَتَيْتُ عَمِّي بِالسِّلَاحِ وَكَانَ شَيْخًا قَدْ عَشَا أَوْ عَسَى فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكُنْتُ أُرَى إِسْلَامُهُ مَدْخُولًا فَلَمَّا أَتَيْتُهُ بِالسِّلَاحِ قَالَ يَا ابْنَ أَخِي هُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَعَرَفْتُ أَنَّ إِسْلَامَهُ كَانَ صَحِيحًا فَلَمَّا نَزَلَ الْقُرْآنُ لَحِقَ بُشَيْرٌ بِالْمُشْرِكِينَ فَنَزَلَ عَلَى سُلَافَةَ بِنْتِ سَعْدِ ابْنِ سُمَيَّةَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَمَنْ يُشَاقِقْ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا فَلَمَّا نَزَلَ عَلَى سُلَافَةَ رَمَاهَا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ بِأَبْيَاتٍ مِنْ شِعْرِهِ فَأَخَذَتْ رَحْلَهُ فَوَضَعَتْهُ عَلَى رَأْسِهَا ثُمَّ خَرَجَتْ بِهِ فَرَمَتْ بِهِ فِي الْأَبْطَحِ ثُمَّ قَالَتْ أَهْدَيْتَ لِي شِعْرَ حَسَّانَ مَا كُنْتَ تَأْتِينِي بِخَيْرٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَهُ غَيْرَ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيِّ وَرَوَى يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ مُرْسَلٌ لَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ وَقَتَادَةُ بْنُ النُّعْمَانِ هُوَ أَخُو أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ لِأُمِّهِ وَأَبُو سَعِيدٍ اسْمُهُ سَعْدُ بْنُ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 3036

کتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں سورہ نساء کی تفسیر قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (انصار) میں سے ایک خاندان ایسا تھا، جنہیں بنو اُبیرق کہا جاتا تھا۔ اور وہ تین بھائی تھے، بِشر، بُشیر اور مُبشر، بشیر منافق تھا، شعر کہتا تھا اور صحابہ کی ہجو کرتا تھا، پھر ان کو بعض عرب کی طرف منسوب کر کے کہتا تھا: فلان نے ایسا ایسا کہا، اور فلاں نے ایسا ایسا کہا ہے۔ صحابہ نے یہ شعر سنا تو کہا اللہ کی قسم! یہ کسی اور کے نہیں بلکہ اسی خبیث کے کہے ہوئے ہیں - یا جیسا کہ راوی نے ’’خبیث‘‘ کی جگہ ’’الرجل‘‘ کہا- انہوں (یعنی صحابہ) نے کہا: یہ اشعار ابن ابیرق کے کہے ہوئے ہیں، وہ لوگ زمانہ جاہلیت اور اسلام دونوں ہی میں محتاج اور فاقہ زدہ لوگ تھے، مدینہ میں لوگوں کا کھانا کھجور اور جوہی تھا، جب کسی شخص کے یہاں مالداری وکشادگی ہو جاتی اور کوئی غلوں کا تاجر شام سے سفید آٹا (میدہ) لے کر آتا تو وہ مالدار شخص اس میں سے کچھ خرید لیتا اور اسے اپنے کھانے کے لیے مخصوص کر لیتا، اور بال بچے کھجور اور جوہی کھاتے رہتے۔ (ایک بار ایسا ہوا) ایک مال بردار شتربان شام سے آیا تو میرے چچا رفاعہ بن زید نے میدے کی ایک بوری خرید لی اور اسے اپنے اسٹاک روم میں رکھ دی، اور اس اسٹور روم میں ہتھیار، زرہ اور تلوار بھی رکھی ہوئی تھی۔ ان پر ظلم وزیادتی یہ ہوئی کہ گھر کے نیچے سے اس اسٹاک روم میں نقب لگائی گئی اور راشن اور ہتھیار سب کا سب چرا لیا گیا، صبح کے وقت میرے چچا رفاعہ میرے پاس آئے اور کہا: میرے بھتیجے آج کی رات تو مجھ پر بڑی زیادتی کی گئی۔ میرے اسٹور روم میں نقب لگائی گئی ہے اور ہمارا راشن اور ہمارا ہتھیار سب کچھ چرا لیا گیا ہے۔ ہم نے محلے میں پتہ لگانے کی کوشش کی اور لوگوں سے پوچھ تاچھ کی توہم سے کہا گیا کہ ہم نے بنی اُبیرق کو آج رات دیکھا ہے، انہوں نے آگ جلا رکھی تھی، اور ہمارا خیال ہے کہ تمہارے ہی کھانے پر (جشن) منا رہے ہوں گے۔ (یعنی چوری کا مال پکا رہے ہوں گے) جب ہم محلے میں پوچھ تاچھ کر رہے تھے تو ابو اُبیرق نے کہا: قسم اللہ کی! ہمیں تو تمہارا چور لبید بن سہل ہی لگتا ہے، لبید ہم میں ایک صالح مرد اور مسلمان شخص تھے، جب لبید نے سنا کہ بنو اُبیرق اس پر چوری کا الزام لگا رہے ہیں تو انہوں نے اپنی تلوار سونت لی، اور کہا میں چور ہوں؟ قسم اللہ کی! میری یہ تلوار تمہارے بیچ رہے گی یا پھر تم اس چوری کا پتہ لگا کر دو۔ لوگوں نے کہا: جناب! آپ اپنی تلوار ہم سے دور ہی رکھیں، آپ چور نہیں ہو سکتے، ہم نے محلے میں مزید پوچھ تاچھ کی، تو ہمیں اس میں شک نہیں رہ گیا کہ بنو اُبیرق ہی چور ہیں۔ میرے چچا نے کہا: بھتیجے! اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتے اور آپ سے اس (حادثے) کا ذکر کرتے (تو ہو سکتا ہے میرا مال مجھے مل جاتا) قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، اور عرض کیا: ہمارے ہی لوگوں میں سے ایک گھر والے نے ظلم وزیادتی کی ہے۔ انہوں نے ہمارے چچا رفاعہ بن زید (کے گھر) کا رخ کیا ہے اور ان کے اسٹور روم میں نقب لگا کر ان کا ہتھیار اور ان کا راشن (کھانا) چرا لے گئے ہیں، تو ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ہتھیار ہمیں واپس دے دیں۔ راشن (غلے) کی واپسی کا ہم مطالبہ نہیں کرتے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں اس بارے میں مشورہ (اور پوچھ تاچھ) کے بعد ہی کوئی فیصلہ دوں گا۔ جب یہ بات بنو اُبیرق نے سنی تو وہ اپنی قوم کے ایک شخص کے پاس آئے، اس شخص کو اُسیر بن عروہ کہا جاتا تھا۔ انہوں نے اس سے اس معاملے میں بات چیت کی اور محلے کے کچھ لوگ بھی اس معاملے میں ان کے ساتھ ایک رائے ہو گئے۔ اور ان سب نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر) کہا: اللہ کے رسول! قتادہ بن نعمان اور ان کے چچا دونوں ہم ہی لوگوں میں سے ایک گھر والوں پر جو مسلمان ہیں اور بھلے لوگ ہیں بغیر کسی گواہ اور بغیر کسی ثبوت کے چوری کا الزام لگاتے ہیں۔ قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے بات چیت کی، آپ نے فرمایا: ’’ تم نے ایک ایسے گھر والوں پر چوری کرنے کا الزام عائد کیا ہے جن کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور بھلے لوگ ہیں اور تمہارے پاس کوئی گواہ اور کوئی ثبوت بھی نہیں ہے۔ قتادہ کہتے ہیں: میں آپ کے پاس سے واپس آ گیا۔ اور میرا جی چاہا کہ میں اپنے کچھ مال سے محروم ہو گیا ہوتا تو مجھے گوارا ہوتا لیکن اس معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے بات نہ کی ہوتی، پھر میرے چچا رفاعہ نے میرے پاس آ کر کہا: بھتیجے! تم نے (اس معاملے میں اب تک) کیا کیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو جواب دیا تھامیں نے انہیں اس سے آگاہ کر دیا، اس پر انہوں نے کہا: اللہ المستعان (اللہ ہی ہمارا مدد گار ہے) ہماری اس بات چیت کو ہوئے تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ قرآن کی یہ آیات (۱۰۵تا۱۱۴) نازل ہوئیں {إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاکَ اللَّہُ وَلاَ تَکُنْ لِلْخَائِنِینَ خَصِیمًا} ۱؎ خائنین سے مراد بنو اُبیرق ہیں اور اللہ نے فرمایا: ’’ {وَاسْتَغْفِرِ اللّہِ } اللہ سے معافی مانگو، یعنی تم نے قتادہ سے جو بات کہی ہے اس سے اللہ سے مغفرت چاہو، {إِنَّ اللّہَ کَانَ غَفُورًا رَّحِیمًا} اللہ غفور (بڑا بخشنے والا) رحیم (مہربان) ہے۔ اور اللہ نے فرمایا: {وَلاَ تُجَادِلْ عَنِ الَّذِینَ یَخْتَانُونَ أَنفُسَہُمْ إِنَّ اللّہَ لاَ یُحِبُّ مَن کَانَ خَوَّانًا أَثِیمًا یَسْتَخْفُونَ مِنَ النَّاسِ وَلاَ یَسْتَخْفُونَ مِنَ -إلی قولہ- غَفُورًا رَّحِیمًا} ۲؎ یعنی اگر یہ لوگ اللہ سے مغفرت طلب کریں تو اللہ انہیں بخش دے گا۔ آگے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’{ وَمَنْ یَکْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا یَکْسِبُہُ عَلَی نَفْسِہِ } إلی قولہ{ إِثْمًا مُبِینًا } ۳؎ اس سے اشارہ نبی اُبیرق کی اس بات کی طرف ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں لگتا ہے کہ یہ چوری لبید بن سہل نے کی ہے۔ اور آگے اللہ نے فرمایا: {لاَّ خَیْرَ فِی کَثِیرٍ مِّن نَّجْوَاہُمْ إِلاَّ مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَۃٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلاَحٍ بَیْنَ النَّاسِ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ ابْتَغَاء مَرْضَاتِ اللّہِ فَسَوْفَ نُؤْتِیہِ أَجْرًا عَظِیمًا} {وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّہِ عَلَیْکَ وَرَحْمَتُہُ-إلی قولہ - فَسَوْفَ نُؤْتِیہِ أَجْرًا عَظِیمًا} ۴؎ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو وہ (بنی اُبیرق) ہتھیار رسول اللہ کے پاس لے آئے۔ اور آپ نے رفاعہ کو لوٹا دیئے، قتادہ کہتے ہیں: میرے چچا بوڑھے تھے اور اسلام لانے سے پہلے زمانہ جاہلیت ہی میں ان کی نگاہیں کمزور ہو چکی تھیں، اور میں سمجھتا تھا کہ ان کے ایمان میں کچھ خلل ہے لیکن جب میں ہتھیار لے کر اپنے چچا کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا: اے میرے بھتیجے! اسے میں اللہ کی راہ میں صدقہ میں دیتا ہوں، اس وقت میں نے جان لیا (اور یقین کر لیا) کہ چچا کا اسلام پختہ اور درست تھا (اور ہے) جب قرآن کی آیتیں نازل ہوئی تو بُشیر مشرکوں میں جا شامل ہوا۔ اور سلافہ بنت سعد بن سمیہ کے پاس جا ٹھہرا، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے آیت {وَمَنْ یُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدَی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیلِ الْمُؤْمِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَوَلَّی وَنُصْلِہِ جَہَنَّمَ وَسَائَتْ مَصِیرًا إِنَّ اللَّہَ لاَ یَغْفِرُ أَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَنْ یَشَائُ وَمَنْ یُشْرِکْ بِاللَّہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِیدًا}نازل فرمائی ۵؎ جب وہ سلافہ کے پاس جا کر ٹھہرا تو حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اپنے چند اشعار کے ذریعہ اس کی ہجو کی، (یہ سن کر) اس نے سدافہ بنت سعد کا سامان اپنے سرپر رکھ کر گھر سے نکلی اور میدان میں پھینک آئی۔ پھر (اس سے) کہا: تم نے ہمیں حسان کے شعر کا تحفہ دیا ہے؟ تم سے مجھے کوئی فائدہ پہنچنے والا نہیں ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، اور ہم محمد بن سلمہ حرانی کے سوا کسی کو نہیں جانتے جس نے اسے مرفوع کیا ہو، ۲- یونس بن بکیر اور کئی لوگوں نے اس حدیث کو محمد بن اسحاق سے اور محمد بن اسحاق نے عاصم بن عمر بن قتادہ سے مرسلاً روایت کیا ہے، اور انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ عاصم نے اپنے باپ سے اور انہوں نے ان کے دادا سے روایت کی ہے، ۳- قتادہ بن نعمان، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے اخیافی بھائی ہیں، ۴- ابو سعید خدری سعد بن مالک بن سنان ہیں۔