جامع الترمذي - حدیث 2952

أَبْوَابُ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَابُ مَا جَاءَ فِي الَّذِي يُفَسِّرُ القُرْآنَ بِرَأْيِهِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَزْمٍ أَخُو حَزْمٍ الْقُطَعِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي سُهَيْلِ بْنِ أَبِي حَزْمٍ وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ أَنَّهُمْ شَدَّدُوا فِي هَذَا فِي أَنْ يُفَسَّرَ الْقُرْآنُ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَأَمَّا الَّذِي رُوِيَ عَنْ مُجَاهِدٍ وَقَتَادَةَ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُمْ فَسَّرُوا الْقُرْآنَ فَلَيْسَ الظَّنُّ بِهِمْ أَنَّهُمْ قَالُوا فِي الْقُرْآنِ أَوْ فَسَّرُوهُ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَوْ مِنْ قِبَلِ أَنْفُسِهِمْ وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُمْ مَا يَدُلُّ عَلَى مَا قُلْنَا أَنَّهُمْ لَمْ يَقُولُوا مِنْ قِبَلِ أَنْفُسِهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَهْدِيٍّ الْبَصْرِيُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ قَتَادَةَ قَالَ مَا فِي الْقُرْآنِ آيَةٌ إِلَّا وَقَدْ سَمِعْتُ فِيهَا شَيْئًا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ قَالَ مُجَاهِدٌ لَوْ كُنْتُ قَرَأْتُ قِرَاءَةَ ابْنِ مَسْعُودٍ لَمْ أَحْتَجْ إِلَى أَنْ أَسْأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ كَثِيرٍ مِنْ الْقُرْآنِ مِمَّا سَأَلْتُ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 2952

کتاب: قرآن کریم کی تفسیر کے بیان میں اپنی رائے سے قرآن کی تفسیر کرنے کی مذمت جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جس نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے (اور اپنی صواب دید) سے کی، اور بات صحیح ودرست نکل بھی گئی تو بھی اس نے غلطی کی ‘‘۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- بعض محدثین نے سہیل بن ابی حزم کے بارے کلام کیا ہے، ۳-اسی طرح بعض اہل علم صحابہ اور دوسروں سے مروی ہے کہ انہوں نے سختی سے اس بات سے منع کیا ہے کہ قرآن کی تفسیر بغیر علم کے کی جائے، لیکن مجاہد، قتادہ اور ان دونوں کے علاوہ بعض اہل علم کے بارے میں جو یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے قرآن کی تفسیر (بغیر علم کے) کی ہے تو یہ کہنا درست نہیں، ایسے (ستودہ صفات) لوگوں کے بارے میں یہ بدگمانی نہیں کی جا سکتی کہ انہوں نے قرآن کے بارے میں جو کچھ کہا ہے یا انہوں نے قرآن کی جو تفسیر کی ہے یہ بغیر علم کے یا اپنے جی سے کی ہے، ۴- ان ائمہ سے ایسی باتیں مروی ہیں جو ہمارے اس قول کو تقویت دیتی ہیں کہ انہوں نے کوئی بات بغیر علم کے اپنی جانب سے نہیں کہی ہیں۔ قتادہ کہتے ہیں کہ قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کی تفسیر میں میں نے کوئی بات (یعنی کوئی روایت) نہ سنی ہو۔ مجاہد کہتے ہیں: اگر میں نے ابن مسعود کی قرأت پڑھی ہوتی تو مجھے قرآن سے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وہ بہت سی باتیں پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آئی ہوتی جو میں نے ان سے پوچھیں۔