أَبْوَابُ الْقِرَاءَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَابٌ وَمِنْ سُورَةِ الْوَاقِعَةِ صحیح الاسناد حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ عَنْ هَارُونَ الْأَعْوَرِ عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فَرُوحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّةُ نَعِيمٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هَارُونَ الْأَعْوَرِ
كتاب: قرآن کریم کی قرأت وتلاوت کے بیان میں
باب: سورہ واقعہ میں فروح کو راء کے ضمہ کے ساتھ پڑھنے کابیان
ام المومنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ﴿فَرُوحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّةُ نَعِيمٍ﴾ ۱؎ پڑھتے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔۲۔ اسے ہم صرف ہارون اعور کی روایت سے ہی جانتے ہیں۔
تشریح :
وضاحت:۱؎: مشہور قراء ت ﴿فَرَوحٌ﴾ (راء پر فتحہ کے ساتھ) ہے ، یعقوب کی قراء ت راء کے ضمہ کے ساتھ ہے، فتحہ کی صورت میں معنی ہے (اسے تو راحت ہے اورغذائیں ہیں اور آرام والی جنت ہے) اورضمہ کی صورت میں معنی ہوگا: ﴿اس کی روح پھولوں اورآرام والی جنت میں نکل کر جائیگی) (الواقعہ : ۸۹)۔
وضاحت:۱؎: مشہور قراء ت ﴿فَرَوحٌ﴾ (راء پر فتحہ کے ساتھ) ہے ، یعقوب کی قراء ت راء کے ضمہ کے ساتھ ہے، فتحہ کی صورت میں معنی ہے (اسے تو راحت ہے اورغذائیں ہیں اور آرام والی جنت ہے) اورضمہ کی صورت میں معنی ہوگا: ﴿اس کی روح پھولوں اورآرام والی جنت میں نکل کر جائیگی) (الواقعہ : ۸۹)۔