جامع الترمذي - حدیث 2924

أَبْوَابُ فَضَائِلِ الْقُرْآنِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ كَيْفَ كَانَتْ قِرَائَةُ النَّبِيِّ ﷺ​ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ مُعَاوِيةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ هُوَ رَجُلٌ بَصْرِيٌّ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ كَانَ يُوتِرُ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ أَوْ مِنْ آخِرِهِ فَقَالَتْ كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَصْنَعُ رُبَّمَا أَوْتَرَ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ وَرُبَّمَا أَوْتَرَ مِنْ آخِرِهِ فَقُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً فَقُلْتُ كَيْفَ كَانَتْ قِرَاءَتُهُ أَكَانَ يُسِرُّ بِالْقِرَاءَةِ أَمْ يَجْهَرُ قَالَتْ كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ قَدْ كَانَ رُبَّمَا أَسَرَّ وَرُبَّمَا جَهَرَ قَالَ فَقُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً قُلْتُ فَكَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ فِي الْجَنَابَةِ أَكَانَ يَغْتَسِلُ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ أَوْ يَنَامُ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ قَالَتْ كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ فَرُبَّمَا اغْتَسَلَ فَنَامَ وَرُبَّمَا تَوَضَّأَ فَنَامَ قُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الْأَمْرِ سَعَةً قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 2924

کتاب: قرآن کریم کے فضائل ومناقب کے بیان میں نبی اکرمﷺ کی قرأت کیسی ہوتی تھی؟​ عبداللہ بن ابی قیس بصری کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی وتر کے بارے میں پوچھا کہ آپ وتر رات کے شروع حصے میں پڑھتے تھے یاآخری حصے میں؟ انہوں نے کہا :آپ دونوں ہی طرح سے کرتے تھے۔ کبھی تو آپ شروع رات میں وتر پڑھ لیتے تھے اور کبھی آخر رات میں وتر پڑھتے تھے۔ میں نے کہا: الحمد للہ! تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین کے معاملے میں وسعت وکشادگی رکھی، پھر میں نے پوچھا: آپﷺکی قرأت کیسی ہوتی تھی؟ کیا آپ دھیرے پڑھتے تھے یا بلند آوازسے؟ کہا: آپﷺ یہ سب کرتے تھے۔ کبھی تو دھیرے پڑھتے تھے اور کبھی آپ زور سے میں نے کہا : الحمد للہ ، تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین میں وسعت وکشادگی رکھی۔ پھر میں نے کہا : آپ جب جنبی ہوجاتے تھے تو کیاکرتے تھے؟ کیاسونے سے پہلے غسل کرلیتے تھے یا غسل کیے بغیر سوجاتے تھے؟ کہا : آپ ﷺ یہ تمام ہی کرتے تھے ، کبھی تو آپ غسل کرلیتے تھے پھر سوتے، اور کبھی وضو کرکے سوجاتے ، میں نے کہا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے دینی کام میں وسعت وکشادگی رکھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔