جامع الترمذي - حدیث 2861

أَبْوَابُ الْأَمْثَالِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي مَثَلِ اللَّهِ لِعِبَادِهِ​ حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَخَذَ بِيَدِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ حَتَّى خَرَجَ بِهِ إِلَى بَطْحَاءِ مَكَّةَ فَأَجْلَسَهُ ثُمَّ خَطَّ عَلَيْهِ خَطًّا ثُمَّ قَالَ لَا تَبْرَحَنَّ خَطَّكَ فَإِنَّهُ سَيَنْتَهِي إِلَيْكَ رِجَالٌ فَلَا تُكَلِّمْهُمْ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَلِّمُونَكَ قَالَ ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ أَرَادَ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي خَطِّي إِذْ أَتَانِي رِجَالٌ كَأَنَّهُمْ الزُّطُّ أَشْعَارُهُمْ وَأَجْسَامُهُمْ لَا أَرَى عَوْرَةً وَلَا أَرَى قِشْرًا وَيَنْتَهُونَ إِلَيَّ وَلَا يُجَاوِزُونَ الْخَطَّ ثُمَّ يَصْدُرُونَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ لَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَاءَنِي وَأَنَا جَالِسٌ فَقَالَ لَقَدْ أَرَانِي مُنْذُ اللَّيْلَةَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيَّ فِي خَطِّي فَتَوَسَّدَ فَخِذِي فَرَقَدَ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَقَدَ نَفَخَ فَبَيْنَا أَنَا قَاعِدٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَسِّدٌ فَخِذِي إِذَا أَنَا بِرِجَالٍ عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ بِيضٌ اللَّهُ أَعْلَمُ مَا بِهِمْ مِنْ الْجَمَالِ فَانْتَهَوْا إِلَيَّ فَجَلَسَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رِجْلَيْهِ ثُمَّ قَالُوا بَيْنَهُمْ مَا رَأَيْنَا عَبْدًا قَطُّ أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ هَذَا النَّبِيُّ إِنَّ عَيْنَيْهِ تَنَامَانِ وَقَلْبُهُ يَقْظَانُ اضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا مَثَلُ سَيِّدٍ بَنَى قَصْرًا ثُمَّ جَعَلَ مَأْدُبَةً فَدَعَا النَّاسَ إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ فَمَنْ أَجَابَهُ أَكَلَ مِنْ طَعَامِهِ وَشَرِبَ مِنْ شَرَابِهِ وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ عَاقَبَهُ أَوْ قَالَ عَذَّبَهُ ثُمَّ ارْتَفَعُوا وَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ فَقَالَ سَمِعْتَ مَا قَالَ هَؤُلَاءِ وَهَلْ تَدْرِي مَنْ هَؤُلَاءِ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ هُمْ الْمَلَائِكَةُ فَتَدْرِي مَا الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوا قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوا الرَّحْمَنُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بَنَى الْجَنَّةَ وَدَعَا إِلَيْهَا عِبَادَهُ فَمَنْ أَجَابَهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ عَاقَبَهُ أَوْ عَذَّبَهُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَأَبُو تَمِيمَةَ هُوَ الْهُجَيْمِيُّ وَاسْمُهُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ وَأَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ وَسُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ قَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْهُ مُعْتَمِرٌ وَهُوَ سُلَيْمَانُ بْنُ طَرْخَانَ وَلَمْ يَكُنْ تَيْمِيًّا وَإِنَّمَا كَانَ يَنْزِلُ بَنِي تَيْمٍ فَنُسِبَ إِلَيْهِمْ قَالَ عَلِيٌّ قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ مَا رَأَيْتُ أَخْوَفَ لِلَّهِ تَعَالَى مِنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 2861

کتاب: مثل اورکہاوت کاتذکرہ اپنے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مثال کابیان​ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عشاء پڑھی۔ پھر پلٹے تو عبداللہ بن مسعود کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انہیں ساتھ لیے ہوئے مکہ کی پتھریلی زمین کی طرف نکل گیے (وہاں ) انہیں ( ایک جگہ) بٹھادیا۔ پھر ان کے چاروں طرف لکیریں کھینچ دیں،اوران سے کہا: ان لکیروں سے باہر نکل کر ہرگز نہ جانا ۔ تمہارے قریب بہت سے لوگ آکر رکیں گے لیکن تم ان سے بات نہ کرنا، اور وہ خود بھی تم سے بات نہ کریں گے'۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر رسول اللہ ﷺ جہاں جانا چاہتے تھے وہاں چلے گئے، اسی دوران کہ میں اپنے دائرہ کے اندر بیٹھا ہواتھا کچھ لوگ میرے پاس آئے وہ جاٹ لگ رہے تھے ۱؎ ، ان کے بال اور جسم نہ مجھے ننگے دکھائی دے رہے تھے اور نہ ہی (ان کے جسموں پر مجھے) لباس نظر آرہاتھا، وہ میرے پاس آکر رک جاتے اور لکیر کو پار نہ کرتے، پھر وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف نکل جاتے، یہاں تک کہ جب رات ختم ہونے کو آئی تو آپﷺ میرے پاس تشریف لا ئے ، میں بیٹھا ہواتھا۔ آپ نے فرمایا:' رات ہی سے اپنے آپ کو دیکھتاہوں (یعنی میں سونہ سکا) پھر آپ دائرے کے اندر داخل ہوکر میرے پاس آئے ۔ اور میری ران کا تکیہ بناکرسوگئے، آپ سونے میں خرّاٹے لینے لگتے تھے، تواسی دوران کہ میں بیٹھا ہواتھا اور آپ میری ران کا تکیہ بنائے ہوئے سورہے تھے ۔ یکایک میں نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے درمیان پایا جن کے کپڑے سفید تھے، اللہ خوب جانتاہے کہ انہیں کس قدر خوبصورتی حاصل تھی۔ وہ لوگ میرے پاس آکر رک گئے، ان میں سے کچھ لوگ رسول اللہﷺ کے سرہانے بیٹھ گئے اور کچھ لوگ آپ کے پائتانے ، پھر ان لوگوں نے آپس میں باتیں کرتے ہوئے کہا: ہم نے کسی بندے کو کبھی نہیں دیکھا جسے اتنا ملاہو جتنا اس نبی کو ملا ہے۔ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور ان کادل بیدار رہتاہے۔ ان کے لیے کوئی مثال پیش کرو (پھرانہوں نے کہا ان کی مثال) ایک سردار کی مثال ہے جس نے ایک محل بنایا ، پھر ایک دسترخوان بچھایا اور لوگوں کو اپنے دسترخوان پر کھانے پینے کے لیے بلایا، تو جس نے ان کی دعوت قبول کرلی وہ ان کے کھانے پینے سے فیض یاب ہوا۔ اور جس نے ان کی دعوت قبول نہ کی وہ (سردار) اسے سزادے گا پھر وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ اور ان کے جاتے ہی رسول اللہ ﷺ بیدار ہوگئے۔ آپ نے فرمایا:' سنا، کیا کہا انہوں نے ؟اور یہ کون لوگ تھے؟ میں نے کہا: اللہ اور اللہ کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:' وہ فرشتے تھے۔ تم سمجھتے ہو انہوں نے کیا مثال دی ہے؟ میں نے(پھر) کہا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:' انہوں نے جومثال دی ہے وہ ہے رحمن (اللہ)تبارک وتعالیٰ کی ، رحمن نے جنت بنائی، اور اپنے بندوں کو جنت کی دعوت دی ۔ تو جس نے دعوت قبول کرلی وہ جنت میں داخل ہوگیا اور جو اس کی دعوت نہ قبول کرے گا وہ اسے عذاب وعقاب سے دوچار کرے گا'۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،۲- ا بوتمیمہ : ہجیمی ہیں اور ان کانام طریف بن مجالد ہے ،۳- ابوعثمان نہدی کانام عبدالرحمن بن مل ہے،۴- سلیمان تیمی جن سے یہ حدیث معتمر نے روایت کی ہے وہ سلیمان بن طرخان ہیں ، وہ اصلا ً تیمی نہ تھے، لیکن وہ بنی تیم میں آیا جایاکرتے تھے جس کی وجہ سے وہ تیمی مشہور ہوگئے۔ علی ابن المدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید کہتے تھے: میں نے سلیمان تیمی سے زیادہ کسی کو اللہ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔