جامع الترمذي - حدیث 286

أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الاِعْتِمَادِ فِي السُّجُودِ​ ضعيف حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ اشْتَكَى بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَشَقَّةَ السُّجُودِ عَلَيْهِمْ إِذَا تَفَرَّجُوا فَقَالَ اسْتَعِينُوا بِالرُّكَبِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا وَكَأَنَّ رِوَايَةَ هَؤُلَاءِ أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ اللَّيْثِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 286

کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل سجدے میں ٹیک لگانے کا بیان​ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بعض صحابہ نے نبی اکرمﷺسے سجدے میں دونوں ہاتھوں کو دونوں پہلوؤں سے اورپیٹ کوران سے جدارکھنے کی صورت میں (تکلیف کی) شکایت کی، توآپ نے فرمایا: گھٹنوں سے (ان پر ٹیک لگا کر) مددلے لیاکرو ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم سے ابو صالح کی حدیث جسے انہوں نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے صرف اسی طریق سے (یعنی لیث عن ابن عجلان کے طریق سے) جانتے ہیں اورسفیان بن عیینہ اور دیگرکئی لوگوں نے یہ حدیث بطریق: 'سُمَیٍّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِی عَیَّاشٍ، عَنِ النَّبِیِّ ﷺ' ( اسی طرح) روایت کی ہے، ان لوگوں کی روایت لیث کی روایت کے مقابلے میں شاید زیادہ صحیح ہے۔
تشریح : ۱؎ : یعنی کہنیاں گھٹنوں پر رکھ لیاکروتاکہ تکلیف کم ہو۔ نوٹ:(محمد بن عجلان کی اس روایت کو ان سے زیادہ ثقہ اور معتبررواۃ نے مرسلاً ذکر کیا ہے، اور ابوہریرہ کا تذکرہ نہیں کیا ، اس لیے ان کی یہ روایت ضعیف ہے ، دیکھئے :ضعیف سنن ابی داود :ج۹/رقم : ۸۳۲) ۱؎ : یعنی کہنیاں گھٹنوں پر رکھ لیاکروتاکہ تکلیف کم ہو۔ نوٹ:(محمد بن عجلان کی اس روایت کو ان سے زیادہ ثقہ اور معتبررواۃ نے مرسلاً ذکر کیا ہے، اور ابوہریرہ کا تذکرہ نہیں کیا ، اس لیے ان کی یہ روایت ضعیف ہے ، دیکھئے :ضعیف سنن ابی داود :ج۹/رقم : ۸۳۲)