جامع الترمذي - حدیث 2740

أَبْوَابُ الِاسْتِئْذَانِ وَالْآدَابِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ كَيْفَ تَشْمِيتُ الْعَاطِسِ​ ضعيف حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ أَنَّهُ كَانَ مَعَ الْقَوْمِ فِي سَفَرٍ فَعَطَسَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ فَقَالَ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ فَكَأَنَّ الرَّجُلَ وَجَدَ فِي نَفْسِهِ فَقَالَ أَمَا إِنِّي لَمْ أَقُلْ إِلَّا مَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَطَسَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْكَ وَعَلَى أُمِّكَ إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَلْيَقُلْ لَهُ مَنْ يَرُدُّ عَلَيْهِ يَرْحَمُكَ اللَّهُ وَلْيَقُلْ يَغْفِرُ اللَّهُ لَنَا وَلَكُمْ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ اخْتَلَفُوا فِي رِوَايَتِهِ عَنْ مَنْصُورٍ وَقَدْ أَدْخَلُوا بَيْنَ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ وَسَالِمٍ رَجُلًا

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 2740

کتاب: سلام مصافحہ اور گھر میں داخل ہونے کے آداب واحکام چھینکنے والے کا جواب کس طرح دیاجائے؟​ سالم بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ ایک سفر میں تھے، ان میں سے ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا:'السلام علیکم' (اس کے جواب میں) سالم رضی اللہ عنہ نے کہا:'علیک وعلی وأمک ' (سلام ہے تم پر اور تمہاری ماں پر)، یہ بات اس شخص کو ناگوارمعلوم ہوئی تو سالم نے کہا:بھئی میں نے تووہی کہاہے جو نبی اکرمﷺنے کہا ہے۔ نبی اکرمﷺکے پاس ایک شخص کو چھینک آئی تو اس نے کہا'السلام علیکم' تو نبی اکرمﷺ نے کہا:'علیک وعلی أمک' ،( تم پر اور تمہاری ماں پر بھی سلامتی ہو)۔ (آپ نے آگے فرمایا) جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو اسے 'الحمد للہ رب العالمین' کہناچاہیے۔ اور جواب دینے والا 'یرحمک اللہ اور (چھینکنے والا)'یغفر اللہ لی ولکم'کہے ،(نہ کہ ' السلام علیک'کہے)۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ ایک ایسی حدیث ہے جس میں منصور سے روایت کرنے میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے، لوگوں نے ہلال بن یساف اور سالم کے درمیان ایک اور راوی کو داخل کیا ہے۔