جامع الترمذي - حدیث 2721

أَبْوَابُ الِاسْتِئْذَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَابُ مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ أَنْ يَقُولَ عَلَيْكَ السَّلامُ مُبْتَدِئًا​ صحیح حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ قَالَ طَلَبْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ فَجَلَسْتُ فَإِذَا نَفَرٌ هُوَ فِيهِمْ وَلَا أَعْرِفُهُ وَهُوَ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ مَعَهُ بَعْضُهُمْ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ قُلْتُ عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَيْكَ السَّلَامُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِنَّ عَلَيْكَ السَّلَامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ إِنَّ عَلَيْكَ السَّلَامُ تَحِيَّةُ الْمَيِّتِ ثَلَاثًا ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ فَقَالَ إِذَا لَقِيَ الرَّجُلُ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ فَلْيَقُلْ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ ثُمَّ رَدَّ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَى وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَبُو غِفَارٍ عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ عَنْ أَبِي جُرَيٍّ جَابِرِ بْنِ سُلَيْمٍ الْهُجَيْمِيِّ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَأَبُو تَمِيمَةَ اسْمُهُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ

ترجمہ جامع الترمذي - حدیث 2721

كتاب: استئذان كے احکام ومسائل باب: بات چیت کی ابتداء "علیک السلام" سے کہہ کر مکروہ ہے​ جابر بن سلیم ؓ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم ﷺ سے ملنا چاہتا تھا، مگر آپﷺ تک پہنچ نہ سکا، میں بیٹھا رہا پھر کچھ لوگ سامنے آئے جن میں آپ ﷺ بھی تھے۔ میں آپﷺ سے واقف نہ تھا، آپﷺ ان لوگوں میں صلح صفائی کرا رہے تھے، جب آپﷺ (اس کام سے ) فارغ ہوئے تو آپﷺ کے ساتھ کچھ دوسرے لوگ بھی اٹھ کھڑے ہوئے، ان لوگوں نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! جب میں نے (لوگوں کو) ایسا کہتے دیکھا تومیں نے کہا: عَلَیْكَ السَّلَامُ یَارَسُوْلَ اللہ! (آپ پر سلامتی ہو اے اللہ کے رسول)اور ایسا میں نے تین بارکہا، آپﷺ نے فرمایا: عَلَیْكَ السَّلامُ میت کا سلام ہے۱؎، آپﷺ نے بھی ایسا تین بار کہا، پھر آپﷺ میری طرف پوری طرح متوجہ ہوئے اورفرمایا: جب آدمی اپنے مسلمان بھائی سے ملے تو اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ کہے (اَلسَّلَامُ عَلَیْكُم وَرَحْمَةُ اللہ) پھر آپﷺ نے میرے سلام کا جواب اس طرح لوٹایا، فرمایا: (وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَعَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ)(تین بار)۔امام ترمذی کہتے ہیں: ابوغفار نے یہ حدیث بسند ابوتمیمہ الہجیمی(عَنْ أَبِي جُرَيٍّ جَابِرِ بْنِ سُلَيْمٍ الْهُجَيْمِيِّ) سے روایت کی ہے، ہجیمی کہتے ہیں: میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا پھر آگے پوری حدیث بیان کردی۔ ابوتمیمہ کا نام طریف بن مجالد ہے۔
تشریح : وضاحت:۱؎: اس حدیث میں(علیك السلام) کہنے کی جو ممانعت ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں سلام کا یہی رواج تھا ، ورنہ اسلام میں تو زندوں اور مردوں دونوں کے لیے (السلام علیکم)ہی سلام ہے، چنانچہ مردوں کے لیے سلام کے تعلق سے حدیث کے یہ الفاظ ہیں: (اَلسَّلاَمُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدَّيَّارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ)۔ وضاحت:۱؎: اس حدیث میں(علیك السلام) کہنے کی جو ممانعت ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں سلام کا یہی رواج تھا ، ورنہ اسلام میں تو زندوں اور مردوں دونوں کے لیے (السلام علیکم)ہی سلام ہے، چنانچہ مردوں کے لیے سلام کے تعلق سے حدیث کے یہ الفاظ ہیں: (اَلسَّلاَمُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدَّيَّارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ)۔