جامع الترمذي - حدیث 2690

أَبْوَابُ الِاسْتِئْذَانِ وَالْآدَابِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي أَنَّ الاِسْتِئْذَانَ ثَلاَثٌ​ صحيح حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى عَنْ الْجُرَيْرِيِّ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ اسْتَأْذَنَ أَبُو مُوسَى عَلَى عُمَرَ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ قَالَ عُمَرُ وَاحِدَةٌ ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً ثُمَّ قَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ قَالَ عُمَرُ ثِنْتَانِ ثُمَّ سَكَتَ سَاعَةً فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَأَدْخُلُ فَقَالَ عُمَرُ ثَلَاثٌ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ عُمَرُ لِلْبَوَّابِ مَا صَنَعَ قَالَ رَجَعَ قَالَ عَلَيَّ بِهِ فَلَمَّا جَاءَهُ قَالَ مَا هَذَا الَّذِي صَنَعْتَ قَالَ السُّنَّةُ قَالَ آلسُّنَّةُ وَاللَّهِ لَتَأْتِيَنِّي عَلَى هَذَا بِبُرْهَانٍ أَوْ بِبَيِّنَةٍ أَوْ لَأَفْعَلَنَّ بِكَ قَالَ فَأَتَانَا وَنَحْنُ رُفْقَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ أَلَسْتُمْ أَعْلَمَ النَّاسِ بِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الِاسْتِئْذَانُ ثَلَاثٌ فَإِنْ أُذِنَ لَكَ وَإِلَّا فَارْجِعْ فَجَعَلَ الْقَوْمُ يُمَازِحُونَهُ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ ثُمَّ رَفَعْتُ رَأْسِي إِلَيْهِ فَقُلْتُ فَمَا أَصَابَكَ فِي هَذَا مِنْ الْعُقُوبَةِ فَأَنَا شَرِيكُكَ قَالَ فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ فَقَالَ عُمَرُ مَا كُنْتُ عَلِمْتُ بِهَذَا وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأُمِّ طَارِقٍ مَوْلَاةِ سَعْدٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْجُرَيْرِيُّ اسْمُهُ سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ يُكْنَى أَبَا مَسْعُودٍ وَقَدْ رَوَى هَذَا غَيْرُهُ أَيْضًا عَنْ أَبِي نَضْرَةَ وَأَبُو نَضْرَةَ الْعَبْدِيُّ اسْمُهُ الْمُنْذِرُ بْنُ مَالِكِ بْنِ قُطَعَةَ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 2690

کتاب: سلام مصافحہ اور گھر میں داخل ہونے کے آداب واحکام کسی کے گھر داخل ہونے کے لیے تین بار اجازت حاصل کرنے کابیان​ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے ان کے پاس حاضر ہونے کی اجازت طلب کی توانہوں نے کہا: 'السلام علیکم' کیا میں اندر آسکتاہوں؟ عمر نے (دل میں )کہا: ابھی تو ایک بار اجازت طلب کی ہے، تھوڑی دیر خاموش رہ کر پھر انہوں نے کہا: ' السلام علیکم ' کیا میں اندر آسکتاہوں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے (دل میں ) کہا: ابھی تو دوہی بار اجازت طلب کی ہے۔ تھوڑی دیر (مزید) خاموش رہ کر انہوں نے پھرکہا: ' السلام علیکم ' کیا مجھے اندر داخل ہونے کی اجازت ہے؟ عمر نے (دل میں کہا) تین بار اجازت طلب کرچکے، پھرابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ واپس ہولیے، عمر رضی اللہ عنہ نے دربان سے کہا : ابوموسیٰ نے کیاکیا؟ اس نے کہا: لوٹ گئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہاانہیں بلاکر میرے پاس لاؤ، پھر جب وہ ان کے پاس آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ آپ نے کیاکیا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے سنت پرعمل کیاہے ، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا سنت پر؟قسم اللہ کی!تمہیں اس کے سنت ہونے پر دلیل وثبوت پیش کرنا ہوگا ورنہ میں تمہارے ساتھ سخت برتاؤ کروں گا۔ابوسعیدخدریکہتے ہیں: پھر وہ ہمارے پاس آئے ،اس وقت ہم انصارکی ایک جماعت کے ساتھ تھے۔ ابوموسیٰ اشعری نے کہا: اے انصارکی جماعت! کیاتم رسول اللہ ﷺ کی حدیث کو دوسرے لوگوں سے زیادہ جاننے والے نہیں ہو،کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں فرمایا: ' الاستئذان ثلاث' (اجازت طلبی) تین بار ہے۔اگر تمہیں اجازت دے دی جائے تو گھر میں جاؤ اور اگر اجازت نہ دی جائے تو لوٹ جاؤ؟ ( یہ سن کر) لوگ ان سے ہنسی مذاق کرنے لگے، ابوسعیدخدری کہتے ہیں: میں نے اپناسرابوموسی اشعری کی طرف اونچا کرکے کہا : اس سلسلے میں جوبھی سزا آپ کوملے گی میں اس میں حصہ دارہوں گا، راوی کہتے ہیں: پھر وہ (ابوسعید) عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور ان کو اس حدیث کی خبردی ، عمر نے کہا: مجھے اس حدیث کا علم نہیں تھا ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور جریری کانام سعید بن ایاس ہے اور ان کی کنیت ابو مسعود ہے۔ یہ حدیث ان کے سوا اور لوگوں نے بھی ابونضرہ سے روایت کی ہے، اور ابونضرہ عبدی کانام منذر بن مالک بن قطعہ ہے، ۲- اس باب میں علی اور سعد کی آزاد کردہ لونڈی رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔