جامع الترمذي - حدیث 2610

أَبْوَابُ الْإِيمَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي وَصْفِ جِبْرِيلَ لِلنَّبِيِّ ﷺ الإِيمَانَ وَالإِسْلاَمَ​ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ قَالَ أَوَّلُ مَنْ تَكَلَّمَ فِي الْقَدَرِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ قَالَ فَخَرَجْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَتَّى أَتَيْنَا الْمَدِينَةَ فَقُلْنَا لَوْ لَقِينَا رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا أَحْدَثَ هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ قَالَ فَلَقِينَاهُ يَعْنِي عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ وَهُوَ خَارِجٌ مِنْ الْمَسْجِدِ قَالَ فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي قَالَ فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلَامَ إِلَيَّ فَقُلْتُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّ قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَقَفَّرُونَ الْعِلْمَ وَيَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ وَأَنَّ الْأَمْرَ أُنُفٌ قَالَ فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي مِنْهُمْ بَرِيءٌ وَأَنَّهُمْ مِنِّي بُرَءَاءُ وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا قُبِلَ ذَلِكَ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ قَالَ ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُ فَقَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَ رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعَرِ لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ حَتَّى أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَلْزَقَ رُكْبَتَهُ بِرُكْبَتِهِ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِيمَانُ قَالَ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ قَالَ فَمَا الْإِسْلَامُ قَالَ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَإِقَامُ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ وَحَجُّ الْبَيْتِ وَصَوْمُ رَمَضَانَ قَالَ فَمَا الْإِحْسَانُ قَالَ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ قَالَ فِي كُلِّ ذَلِكَ يَقُولُ لَهُ صَدَقْتَ قَالَ فَتَعَجَّبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ قَالَ فَمَتَى السَّاعَةُ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ قَالَ فَمَا أَمَارَتُهَا قَالَ أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ أَصْحَابَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ قَالَ عُمَرُ فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ بِثَلَاثٍ فَقَالَ يَا عُمَرُ هَلْ تَدْرِي مَنْ السَّائِلُ ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا كَهْمَسُ بْنُ الْحَسَنِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ عَنْ كَهْمَسٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ وَفِي الْبَاب عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ نَحْوُ هَذَا عَنْ عُمَرَ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالصَّحِيحُ هُوَ ابْنُ عُمَرَ عَنْ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 2610

کتاب: ایمان واسلام کے بیان میں جبریل علیہ السلام کا نبی اکرم ﷺسے ایمان واسلام کے اوصاف بیان کرنا​ یحیی بن یعمر کہتے ہیں: سب سے پہلے جس شخص نے تقدیر کے انکار کی بات کی وہ معبد جہنی ہے، میں اور حمید بن عبدالرحمن حمیری دونوں(سفرپر) نکلے یہاں تک کہ مدینہ پہنچے ، ہم نے (آپس میں بات کرتے ہوئے) کہا:کاش ہماری نبی اکرم ﷺ کے صحابہ میں سے کسی شخص سے ملاقات ہوجائے تو ہم ان سے اس نئے فتنے کے متعلق پوچھیں جو ان لوگوں نے پیدا کیا ہے،چنانچہ ( خوش قسمتی سے) ہماری ان سے یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ جب وہ مسجد سے نکل رہے تھے ، ملاقات ہوگئی، پھر میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا ۱؎ میں نے یہ اندازہ لگاکرکہ میرا ساتھی بات کرنے کی ذمہ داری اور حق مجھے سونپ دے گا،عرض کیا: ابوعبدالرحمن !کچھ لوگ ہیں جو قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن میں غوروفکراور تلاش وجستجو (کا دعویٰ )بھی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ خیال رکھتے ہیں کہ تقدیر کوئی چیز نہیں ہے، اورامر( معاملہ) ازسرے نواور ابتدائی ہے ۲؎ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: جب تم ان سے ملو (اور تمہارا ان کا آمناسامنا ہو) تو انہیں بتادو کہ میں ان سے بری (وبیزار)ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں ، قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم کھاتاہے عبداللہ !(یعنی اللہ کی ) اگر ان میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابربھی سونا خرچ کرڈالے تو جب تک وہ اچھی اور بری تقدیر پرایمان نہیں لے آتا اس کا یہ خرچ مقبول نہ ہوگا، پھر انہوں نے حدیث بیان کرنی شروع کی اور کہا : عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے اسی دوران ایک شخص آیا جس کے کپڑے بہت زیادہ سفید تھے، اس کے بال بہت زیادہ کالے تھے، وہ مسافر بھی نہیں لگتا تھا اور ہم لوگوں میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا۔ وہ نبی اکرم ﷺ کے قریب آیااور اپنے گھٹنے آپ ﷺ کے گھٹنوں سے ملاکر بیٹھ گیا پھر کہا: اے محمد!ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:' ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اوراچھی بری تقدیر پر ایمان لاؤ۔ اس نے (پھر) پوچھا: اور اسلام کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:' اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں ہے اور محمداللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، صلاۃ قائم کرنا ، زکاۃ دینا، بیت اللہ شریف کا حج کرنا اور رمضان کے صیام رکھنا ، اس نے (پھر) پوچھا: احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:' احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر تم اللہ کو دیکھنے کا تصور اپنے اندر پیدا نہ کرسکو تو یہ یقین کرکے اس کی عبادت کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہاہے'، وہ شخص آپ ﷺ کے ہر جواب پر کہتا جاتاتھا کہ آپ نے درست فرمایا۔ اور ہم اس پر حیرت کرتے تھے کہ یہ کیسا عجیب آدمی ہے کہ وہ خود ہی آپ سے پوچھتاہے اور خود ہی آپ ﷺ کے جواب کی تصدیق بھی کرتاجاتاہے، اس نے (پھر) پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ آپ نے فرمایا:' جس سے پوچھا گیا ہے، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا'، اس نے کہا: اس کی علامت (نشانی) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:' اس وقت حالت یہ ہوگی کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ۳؎ ، اس وقت تم دیکھو گے کہ ننگے پیر چلنے والے، ننگے بدن رہنے والے، محتاج بکریوں کے چرانے والے ایک سے بڑھ کر ایک اونچی عمارتیں بنانے میں فخر کرنے والے ہوں گے'، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ مجھے اس واقعہ کے تین دن بعدملے تو آپ نے فرمایا:' عمر! کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ پوچھنے والا کون تھا؟ وہ جبرئیل علیہ السلام تھے۔ تمہارے پاس تمہیں دین کی بنیادی باتیں سکھانے آئے تھے'۔ اس سند سے بھی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اس سند سے بھی عمر رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ متعدد سندوں سے ابن عمر سے بھی اسی طرح مروی ہے، ۳-کبھی ایسا بھی ہواہے کہ یہ حدیث ابن عمر کے واسطہ سے آئی ہے اور انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ ابن عمر روایت کرتے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ سے اور عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ سے،۲- اس باب میں طلحہ بن عبید اللہ، انس بن مالک اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔