أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ صحيح حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ
کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل
نبی اکرمﷺ صرف پہلی مرتبہ ہاتھ اٹھاتے تھے
علقمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا:' کیا میں تمہیں رسول اللہﷺ کی طرح صلاۃ نہ پڑھاؤں؟ توانہوں نے صلاۃ پڑھائی اورصرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے ، ۲- اس باب میں براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے بھی حدیث آئی ہے، ۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم یہی کہتے ہیں اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کابھی قول ہے ۔
تشریح :
۱؎ : جولوگ رفع الیدین کی مشروعیت کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں انہوں نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، امام احمد اور امام بخاری نے عاصم بن کلیب کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے، اور اگراسے صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ ان روایتوں کے معارض نہیں جن سے رکوع جاتے وقت اوررکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا اثبات ہوتا ہے، اس لیے کہ رفع یدین مستحب ہے فرض یاواجب نہیں، دوسرے یہ کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اسے نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتاکہ اوروں کی روایت غلط ہو، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بہت سے مسائل مخفی رہ گئے تھے، ہوسکتاہے یہ بھی انہیں میں سے ہو جیسے جنبی کے تیمم کا مسئلہ ہے یا (رکوع کے درمیان دونوں ہاتھوں کی) تطبیق کی منسوخی کامعاملہ ہے۔
۱؎ : جولوگ رفع الیدین کی مشروعیت کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں انہوں نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، امام احمد اور امام بخاری نے عاصم بن کلیب کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے، اور اگراسے صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ ان روایتوں کے معارض نہیں جن سے رکوع جاتے وقت اوررکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا اثبات ہوتا ہے، اس لیے کہ رفع یدین مستحب ہے فرض یاواجب نہیں، دوسرے یہ کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اسے نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتاکہ اوروں کی روایت غلط ہو، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بہت سے مسائل مخفی رہ گئے تھے، ہوسکتاہے یہ بھی انہیں میں سے ہو جیسے جنبی کے تیمم کا مسئلہ ہے یا (رکوع کے درمیان دونوں ہاتھوں کی) تطبیق کی منسوخی کامعاملہ ہے۔