جامع الترمذي - حدیث 255

أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الرُّكُوعِ​ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ، وَزَادَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ فِي حَدِيثِهِ: وَكَانَ لاَيَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 255

کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل رکوع کے وقت دونوں ہاتھ اٹھانے کا بیان​ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ جب آپ صلاۃ شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھا تے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل کرتے ، اور جب رکوع کرتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے( تو بھی اسی طرح دونوں ہاتھ اٹھاتے) ۱؎ ۔ ابن ابی عمر (ترمذی کے دوسرے استاذ)نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے، دونوں سجدوں کے درمیان نہیں اٹھاتے تھے۔
تشریح : ۱؎ : اس حدیث سے ثابت ہوا کہ تکبیرتحریمہ کے وقت ،رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین مسنون ہے اوربعض حدیثوں سے تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت بھی رفع یدین کرنا ثابت ہے، صحابہ کرام اورتابعین عظام میں زیادہ ترلوگوں کا اسی پر عمل ہے، خلفاء راشدین اورعشرئہ مبشرہ سے بھی رفع یدین ثابت ہے،جولوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین کی حدیثیں منسوخ ہیں وہ صحیح نہیں کیونکہ رفع یدین کی حدیثیں ایسے صحابہ سے بھی مروی ہیں جو آخرمیں اسلام لائے تھے مثلاً وائل بن حجرہیں جوغزوہ تبوک کے بعد ۹ھ میں داخل اسلام ہوئے ہیں،اوریہ اپنے اسلام لانے کے دوسرے سال جب نبی اکرمﷺ کی خدمت میں آئے تووہ سخت سردی کا زمانہ تھا انہوں نے صحابہ کرام کودیکھا کہ وہ کپڑوں کے نیچے سے رفع یدین کرتے تھے۔ ۱؎ : اس حدیث سے ثابت ہوا کہ تکبیرتحریمہ کے وقت ،رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین مسنون ہے اوربعض حدیثوں سے تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت بھی رفع یدین کرنا ثابت ہے، صحابہ کرام اورتابعین عظام میں زیادہ ترلوگوں کا اسی پر عمل ہے، خلفاء راشدین اورعشرئہ مبشرہ سے بھی رفع یدین ثابت ہے،جولوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین کی حدیثیں منسوخ ہیں وہ صحیح نہیں کیونکہ رفع یدین کی حدیثیں ایسے صحابہ سے بھی مروی ہیں جو آخرمیں اسلام لائے تھے مثلاً وائل بن حجرہیں جوغزوہ تبوک کے بعد ۹ھ میں داخل اسلام ہوئے ہیں،اوریہ اپنے اسلام لانے کے دوسرے سال جب نبی اکرمﷺ کی خدمت میں آئے تووہ سخت سردی کا زمانہ تھا انہوں نے صحابہ کرام کودیکھا کہ وہ کپڑوں کے نیچے سے رفع یدین کرتے تھے۔