أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْجَهْرِ ( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ) ضعيف حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ الْجُرَيْرِيُّ عَنْ قَيْسِ بْنِ عَبَايَةَ عَنْ ابْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ سَمِعَنِي أَبِي وَأَنَا فِي الصَّلَاةِ أَقُولُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ فَقَالَ لِي أَيْ بُنَيَّ مُحْدَثٌ إِيَّاكَ وَالْحَدَثَ قَالَ وَلَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَبْغَضَ إِلَيْهِ الْحَدَثُ فِي الْإِسْلَامِ يَعْنِي مِنْهُ قَالَ وَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَمَعَ عُمَرَ وَمَعَ عُثْمَانَ فَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا مِنْهُمْ يَقُولُهَا فَلَا تَقُلْهَا إِذَا أَنْتَ صَلَّيْتَ فَقُلْ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَغَيْرُهُمْ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ التَّابِعِينَ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَابْنُ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ لَا يَرَوْنَ أَنْ يَجْهَرَ بِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ قَالُوا وَيَقُولُهَا فِي نَفْسِهِ
کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل
بسم اللہ الرحمن الرحیم زورسے نہ پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے بیٹے کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے صلاۃمیں بسم اللہ الرحمن الرحیم کہتے سنا تو انہوں نے مجھ سے کہا:بیٹے!یہ بدعت ہے، اور بدعت سے بچو۔ میں نے رسول اللہﷺ کے اصحاب میں سے کسی کو نہیں دیکھا جوان سے زیادہ اسلام میں بدعت کامخالف ہو، میں نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ، ابوبکر کے ساتھ، عمر کے ساتھ اور عثمان ( رضی اللہ عنہم ) کے ساتھ صلاۃ پڑھی ہے لیکن میں نے ان میں سے کسی کو اسے (اُونچی آواز سے) کہتے نہیں سنا، توتم بھی اسے نہ کہو ۱؎ ، جب تم صلاۃ پڑھو توقرأت الحمد للہ رب العالمین سے شروع کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- صحابہ جن میں ابوبکر، عمر، عثمان، علی وغیرہ شامل ہیں اوران کے بعدکے تابعین میں سے اکثراہل علم کا عمل اسی پر ہے،اوریہی سفیان ثوری ، ابن مبارک ، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، یہ لوگ' بسم اللہ الرحمن الرحیم 'زور سے کہنے کو درست نہیں سمجھتے (بلکہ) ان کاکہنا ہے کہ آدمی اسے اپنے دل میں کہے ۲؎ ۔
تشریح :
۱؎ : 'تم بھی اسے نہ کہو'سے بظاہرایسالگتاہے کہ انہوں نے سرے سے 'بسم اللہ' پڑھنے ہی سے منع کیاہے، لیکن بہتریہ ہے کہ اسے جہر(بلندآواز)سے پڑھنے سے روکنے پرمحمول کیاجائے، اس لیے کہ اس سے پہلے جو یہ جملہ ہے کہ' ان میں سے کسی کو میں نے اسے کہتے نہیں سنا'،اس جملے کا تعلق بلندآوازسے ہے کیونکہ وہی چیز سنی جاتی ہے جوجہر(زور)سے کہی جائے، مصنف کا ترجمۃ الباب میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔
وضاحت ۲؎ : بسم اللہ کے زورسے پڑھنے کے متعلق جواحادیث آئی ہیں ان میں سے اکثرضعیف ہیں، ان میں سب سے عمدہ روایت نعیم المحجرکی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں 'صليت وراء أبي هريرة فقرأ بسم الله الرحمن الرحيم ثم قرأ بأم القرآن حتى إذا بلغ غير المغضوب عليهم ولاالضالين فقال آمين وقال الناس آمين' الحدیث، اس روایت پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اس روایت کو نعیم المحجر کے علاوہ اوربھی لوگوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے لیکن اس میں 'بسم اللہ' کاذکرنہیں ہے، اس کا جواب یہ دیاجاتاہے کہ نعیم المحجرثقہ ہیں اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے اس لیے اس سے جہر پر دلیل پکڑی جاسکتی ہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ سرّاً اورجہراً دونوں طرح سے جائزہے لیکن اکثراورزیادہ ترصحیح احادیث آہستہ ہی پڑھنے کی آئی ہیں۔ (دیکھئے حدیث رقم:۲۴۶)
نوٹ:(بعض ائمہ نے 'ابن عبداللہ بن مغفل 'کو مجہول قراردے کراس روایت کو ضعیف قراردیاہے، جبکہ حافظ مزی نے ان کا نام 'یزید' بتایاہے، اور حافظ ابن حجرنے ان کو 'صدوق'قراردیاہے)
۱؎ : 'تم بھی اسے نہ کہو'سے بظاہرایسالگتاہے کہ انہوں نے سرے سے 'بسم اللہ' پڑھنے ہی سے منع کیاہے، لیکن بہتریہ ہے کہ اسے جہر(بلندآواز)سے پڑھنے سے روکنے پرمحمول کیاجائے، اس لیے کہ اس سے پہلے جو یہ جملہ ہے کہ' ان میں سے کسی کو میں نے اسے کہتے نہیں سنا'،اس جملے کا تعلق بلندآوازسے ہے کیونکہ وہی چیز سنی جاتی ہے جوجہر(زور)سے کہی جائے، مصنف کا ترجمۃ الباب میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔
وضاحت ۲؎ : بسم اللہ کے زورسے پڑھنے کے متعلق جواحادیث آئی ہیں ان میں سے اکثرضعیف ہیں، ان میں سب سے عمدہ روایت نعیم المحجرکی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں 'صليت وراء أبي هريرة فقرأ بسم الله الرحمن الرحيم ثم قرأ بأم القرآن حتى إذا بلغ غير المغضوب عليهم ولاالضالين فقال آمين وقال الناس آمين' الحدیث، اس روایت پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اس روایت کو نعیم المحجر کے علاوہ اوربھی لوگوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے لیکن اس میں 'بسم اللہ' کاذکرنہیں ہے، اس کا جواب یہ دیاجاتاہے کہ نعیم المحجرثقہ ہیں اور ثقہ کی زیادتی مقبول ہوتی ہے اس لیے اس سے جہر پر دلیل پکڑی جاسکتی ہے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ سرّاً اورجہراً دونوں طرح سے جائزہے لیکن اکثراورزیادہ ترصحیح احادیث آہستہ ہی پڑھنے کی آئی ہیں۔ (دیکھئے حدیث رقم:۲۴۶)
نوٹ:(بعض ائمہ نے 'ابن عبداللہ بن مغفل 'کو مجہول قراردے کراس روایت کو ضعیف قراردیاہے، جبکہ حافظ مزی نے ان کا نام 'یزید' بتایاہے، اور حافظ ابن حجرنے ان کو 'صدوق'قراردیاہے)