جامع الترمذي - حدیث 235

أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ مَنْ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ​ صحيح حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ و حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِسْمَعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ الزُّبَيْدِيِّ عَنْ أَوْسِ بْنِ ضَمْعَجٍ قَال سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيَّ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ كَانُوا فِي الْقِرَاءَةِ سَوَاءً فَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ فَإِنْ كَانُوا فِي السُّنَّةِ سَوَاءً فَأَقْدَمُهُمْ هِجْرَةً فَإِنْ كَانُوا فِي الْهِجْرَةِ سَوَاءً فَأَكْبَرُهُمْ سِنًّا وَلَا يُؤَمُّ الرَّجُلُ فِي سُلْطَانِهِ وَلَا يُجْلَسُ عَلَى تَكْرِمَتِهِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ قَالَ مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ أَقْدَمُهُمْ سِنًّا قَالَ أَبُو عِيسَى وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَمَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ وَعَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى وَحَدِيثُ أَبِي مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا أَحَقُّ النَّاسِ بِالْإِمَامَةِ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ وَأَعْلَمُهُمْ بِالسُّنَّةِ وَقَالُوا صَاحِبُ الْمَنْزِلِ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ و قَالَ بَعْضُهُمْ إِذَا أَذِنَ صَاحِبُ الْمَنْزِلِ لَغَيْرِهِ فَلَا بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ بِهِ وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ وَقَالُوا السُّنَّةُ أَنْ يُصَلِّيَ صَاحِبُ الْبَيْتِ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَقَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يُؤَمُّ الرَّجُلُ فِي سُلْطَانِهِ وَلَا يُجْلَسُ عَلَى تَكْرِمَتِهِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ فَإِذَا أَذِنَ فَأَرْجُو أَنَّ الْإِذْنَ فِي الْكُلِّ وَلَمْ يَرَ بِهِ بَأْسًا إِذَا أَذِنَ لَهُ أَنْ يُصَلِّيَ بِهِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 235

کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل امامت کا زیادہ حق دار کون ہے؟​ ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:' لوگوں کی امامت وہ کرے جو اللہ کی کتاب (قرآن) کا سب سے زیادہ علم رکھنے والاہو، اگرلوگ قرآن کے علم میں برابر ہوں تو جوسب سے زیادہ سنت کا جاننے والا ہووہ امامت کرے، اور اگر وہ سنت کے علم میں بھی برابر ہوں تو جس نے سب سے پہلے ہجرت کی ہووہ امامت کرے، اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں تو جوعمرمیں سب سے بڑا ہووہ امامت کرے، آدمی کے دائرہ اقتدار میں اس کی امامت نہ کی جائے اور نہ کسی آدمی کے گھرمیں اس کی مخصوص جگہ پر اس کی اجازت کے بغیر بیٹھاجائے'۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابومسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ا بوسعید، انس بن مالک، مالک بن حویرث اور عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کا کہناہے کہ لوگوں میں امامت کا حق دار وہ ہے جو اللہ کی کتاب (قرآن) اور سنت کا سب سے زیادہ علم رکھتاہو۔نیز وہ کہتے ہیں کہ گھرکا مالک خود امامت کازیادہ مستحق ہے،اور بعض نے کہاہے: جب گھرکا مالک کسی دوسرے کو اجازت دے دے تو اس کے صلاۃ پڑھانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن بعض لوگوں نے اسے بھی مکروہ جاناہے، وہ کہتے ہیں کہ سنت یہی ہے کہ گھرکا مالک خود پڑھائے ۱؎ ، ۴- احمد بن حنبل نبی اکرمﷺ کے فرمان:' آدمی کے دائرہ اقتدار میں اس کی امامت نہ کی جائے اورنہ اس کے گھرمیں اس کی مخصوص نشست پر اس کی اجازت کے بغیربیٹھاجائے' کے بارے میں کہتے ہیں کہ جب وہ اجازت دے دے تو میں امید رکھتاہوں کہ یہ اجازت مسند پر بیٹھنے اورامامت کرنے دونوں سے متعلق ہوگی، انہوں نے اس کے صلاۃپڑھانے میں کوئی حرج نہیں جاناکہ جب وہ اجازت دے دے۔
تشریح : ۱؎ : ان لوگوں کی دلیل مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی روایت 'من زار قوما فلا يؤمهم وليؤمهم رجل منهم'ہے 'إلا بإذنه ' کے متعلق ان کاکہنا ہے کہ اس کاتعلق صرف'لايجلس على تكرمته'سے ہے 'لايؤم الرجل في سلطانه'سے نہیں ہے۔ ۱؎ : ان لوگوں کی دلیل مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی روایت 'من زار قوما فلا يؤمهم وليؤمهم رجل منهم'ہے 'إلا بإذنه ' کے متعلق ان کاکہنا ہے کہ اس کاتعلق صرف'لايجلس على تكرمته'سے ہے 'لايؤم الرجل في سلطانه'سے نہیں ہے۔