جامع الترمذي - حدیث 230

أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ​ صحيح حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ قَالَ أَخَذَ زِيَادُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ بِيَدِي وَنَحْنُ بِالرَّقَّةِ فَقَامَ بِي عَلَى شَيْخٍ يُقَالُ لَهُ وَابِصَةُ بْنُ مَعْبَدٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ فَقَالَ زِيَادٌ حَدَّثَنِي هَذَا الشَّيْخُ أَنَّ رَجُلًا صَلَّى خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ وَالشَّيْخُ يَسْمَعُ فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعِيدَ الصَّلَاةَ قَالَ أَبُو عِيسَى وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيِّ بْنِ شَيْبَانَ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَى وَحَدِيثُ وَابِصَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ وَقَالُوا يُعِيدُ إِذَا صَلَّى خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يُجْزِئُهُ إِذَا صَلَّى خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ إِلَى حَدِيثِ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَيْضًا قَالُوا مَنْ صَلَّى خَلْفَ الصَّفِّ وَحْدَهُ يُعِيدُ مِنْهُمْ حَمَّادُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ وَابْنُ أَبِي لَيْلَى وَوَكِيعٌ وَرَوَى حَدِيثَ حُصَيْنٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ غَيْرُ وَاحِدٍ مِثْلَ رِوَايَةِ أَبِي الْأَحْوَصِ عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ وَفِي حَدِيثِ حُصَيْنٍ مَا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ هِلَالًا قَدْ أَدْرَكَ وَابِصَةَ وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْحَدِيثِ فِي هَذَا فَقَالَ بَعْضُهُمْ حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ رَاشِدٍ عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَصَحُّ وَقَالَ بَعْضُهُمْ حَدِيثُ حُصَيْنٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ وَابِصَةَ بْنِ مَعْبَدٍ أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَى وَهَذَا عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو ابْنِ مُرَّةَ لِأَنَّهُ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ حَدِيثِ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ عَنْ وَابِصَةَ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 230

کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھنے کا بیان​ ہلال بن یساف کہتے ہیں کہ زیاد بن ابی الجعد نے میرا ہاتھ پکڑا ،(ہم لوگ رقہ میں تھے) پھر انہوں نے مجھے لے جاکر بنی اسد کے وابصہ بن معبدنامی ایک شیخ کے پاس کھڑا کیا اور کہا: مجھ سے اس شیخ نے بیان کیا اورشیخ ان کی بات سن رہے تھے کہ ایک شخص نے صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھی تو رسول اللہﷺ نے اسے صلاۃ دہرانے کا حکم دیا ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں علی بن شیبان اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اہل علم میں سے کچھ لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے کہ آدمی صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھے اور کہا ہے کہ اگر اس نے صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھی ہے تووہ صلاۃدہرائے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں،۴- اہل علم میں سے بعض لوگوں نے کہاہے کہ اسے کافی ہوگا جب وہ صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھے، سفیان ثوری، ابن مبارک اورشافعی کابھی یہی قول ہے،۵- اہل کوفہ میں سے کچھ لوگ وابصہ بن معبد کی حدیث کی طرف گئے ہیں ، ان لوگوں کاکہناہے کہ جو صف کے پیچھے تنہا صلاۃ پڑھے، وہ اسے دہرائے ۔ انہیں میں سے حماد بن ابی سلیمان ، ابن ابی لیلی اوروکیع ہیں، ۶- مولف نے اس حدیث کے طرق کے ذکرکے بعد فرمایا کہ عمرو بن مرّہ کی حدیث جسے انہوں نے بطریق ' ہلال بن یساف، عن عمرو بن راشد، عن وابصۃ' روایت کی ہے، زیادہ صحیح ہے، اوربعض نے کہا ہے کہ حصین کی حدیث جسے انہوں نے بطریق ' ہلال بن یساف، عن زیاد بن أبی الجعد عن وابصۃ ' روایت کی ہے زیادہ صحیح ہے۔ اور میرے نزدیک یہ عمرو بن مرہ کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ یہ ہلال بن یساف کے علاوہ طریق سے بھی زیادبن ابی الجعدکے واسطے سے وابصہ سے مروی ہے۔
تشریح : ۱؎ : صف کے پیچھے اگرکوئی تنہاصلاۃ پڑھ رہاہوتو اس کی صلاۃ درست ہے یانہیں،اس مسئلہ میں علماء میں اختلاف ہے: امام احمد اوراسحاق بن راہویہ کے نزدیک صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی صلاۃدرست نہیں،ان کی دلیل یہی روایت ہے نیز علی بن شیبان اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی احادیث بھی ہیں جو اس معنی میں بالکل واضح ہیں، اس لیے ان کی خواہ مخواہ تاویل کی ضرورت نہیں، (جیساکہ بعض لوگوں کا کہناہے کہ آپ کا یہ فرمان بطور تنبیہ تھا) بنابریں جماعت کی مصلحت کی خاطر بعد میں آنے والے کے لیے بالکل جائز ہے کہ اگلی صف سے کسی کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملالے ، اس معنی میں کچھ روایات بھی وارد ہیں گر چہ وہ ضعیف ہیں ، لیکن ان تینوں صحیح احادیث سے ان کے معنی کی تائید ہوجاتی ہے۔ ہاں! بعض علماء کا یہ کہنا ہے کہ اگر صف میں جگہ نہ ہو تب اکیلے پڑھنے سے کوئی حرج نہیں، اس حدیث میں وعید اس اکیلے مصلی کے لیے ہے جس نے صف میں جگہ ہوتے ہوئے بھی پیچھے اکیلے پڑھی ہو، واللہ اعلم۔ ۱؎ : صف کے پیچھے اگرکوئی تنہاصلاۃ پڑھ رہاہوتو اس کی صلاۃ درست ہے یانہیں،اس مسئلہ میں علماء میں اختلاف ہے: امام احمد اوراسحاق بن راہویہ کے نزدیک صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی صلاۃدرست نہیں،ان کی دلیل یہی روایت ہے نیز علی بن شیبان اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کی احادیث بھی ہیں جو اس معنی میں بالکل واضح ہیں، اس لیے ان کی خواہ مخواہ تاویل کی ضرورت نہیں، (جیساکہ بعض لوگوں کا کہناہے کہ آپ کا یہ فرمان بطور تنبیہ تھا) بنابریں جماعت کی مصلحت کی خاطر بعد میں آنے والے کے لیے بالکل جائز ہے کہ اگلی صف سے کسی کو کھینچ کر اپنے ساتھ ملالے ، اس معنی میں کچھ روایات بھی وارد ہیں گر چہ وہ ضعیف ہیں ، لیکن ان تینوں صحیح احادیث سے ان کے معنی کی تائید ہوجاتی ہے۔ ہاں! بعض علماء کا یہ کہنا ہے کہ اگر صف میں جگہ نہ ہو تب اکیلے پڑھنے سے کوئی حرج نہیں، اس حدیث میں وعید اس اکیلے مصلی کے لیے ہے جس نے صف میں جگہ ہوتے ہوئے بھی پیچھے اکیلے پڑھی ہو، واللہ اعلم۔