أَبْوَابُ الْوَصَايَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ لاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ عَلَى نَاقَتِهِ وَأَنَا تَحْتَ جِرَانِهَا وَهِيَ تَقْصَعُ بِجِرَّتِهَا وَإِنَّ لُعَابَهَا يَسِيلُ بَيْنَ كَتِفَيَّ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ وَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ وَالْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ وَمَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ أَوْ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ رَغْبَةً عَنْهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا قَالَ و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ لَا أُبَالِي بِحَدِيثِ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ فَوَثَّقَهُ وَقَالَ إِنَّمَا يَتَكَلَّمُ فِيهِ ابْنُ عَوْنٍ ثُمَّ رَوَى ابْنُ عَوْنٍ عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي زَيْنَبَ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
کتاب: وصیت کے احکام ومسائل وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں عمر وبن خارجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : نبی اکرمﷺ اپنی اونٹنی پرخطبہ دے رہے تھے، اس وقت میں اس کی گردن کے نیچے تھا، وہ جگالی کررہی تھی اور اس کا لعاب میرے کندھوں کے درمیان بہہ رہاتھا، آپ نے فرمایا:' اللہ تعالیٰ نے ہرحق والے کا حق دے دیاہے،کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں، لڑکا (ولد زنا) بستر والے کی طرف منسوب ہوگا، اور زانی رجم کا مستحق ہے، جوشخص اپنے باپ کے علاوہ کی طرف نسبت کرے یا(غلام) اپنے مالکوں کے علاوہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے انہیں ناپسند کرتے ہوئے اس پر اللہ کی لعنت ہے، اللہ ایسے شخص کا نہ نفلی عبادت قبول کرے گا نہ فریضہ'۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- احمدبن حنبل کہتے ہیں: میں شہر بن حوشب کی حدیث کی پرواہ نہیں کرتا ہوں،۳- امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسماعیل سے شہربن حوشب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے توثیق کی اور کہا: ان کے بارے میں ابن عون نے کلام کیاہے، پھر ابن عون نے خود ہلال بن ابوزینب کے واسطہ سے شہر بن حوشب سے روایت کی ہے۔