جامع الترمذي - حدیث 203

أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الأَذَانِ بِاللَّيْلِ​ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى تَسْمَعُوا تَأْذِينَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ قَالَ أَبُو عِيسَى وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَعَائِشَةَ وَأُنَيْسَةَ وَأَنَسٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَسَمُرَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْأَذَانِ بِاللَّيْلِ فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ بِاللَّيْلِ أَجْزَأَهُ وَلَا يُعِيدُ وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا أَذَّنَ بِلَيْلٍ أَعَادَ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ بِلَالًا أَذَّنَ بِلَيْلٍ فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُنَادِيَ إِنَّ الْعَبْدَ نَامَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُهُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ وَرَوَى عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ مُؤَذِّنًا لِعُمَرَ أَذَّنَ بِلَيْلٍ فَأَمَرَهُ عُمَرُ أَنْ يُعِيدَ الْأَذَانَ وَهَذَا لَا يَصِحُّ أَيْضًا لِأَنَّهُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عُمَرَ مُنْقَطِعٌ وَلَعَلَّ حَمَّادَ بْنَ سَلَمَةَ أَرَادَ هَذَا الْحَدِيثَ وَالصَّحِيحُ رِوَايَةُ عُبَيْدِ اللَّهِ وَغَيْرِ وَاحِدٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَالزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ قَالَ أَبُو عِيسَى وَلَوْ كَانَ حَدِيثُ حَمَّادٍ صَحِيحًا لَمْ يَكُنْ لِهَذَا الْحَدِيثِ مَعْنًى إِذْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ فَإِنَّمَا أَمَرَهُمْ فِيمَا يُسْتَقْبَلُ و قَالَ إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ وَلَوْ أَنَّهُ أَمَرَهُ بِإِعَادَةِ الْأَذَانِ حِينَ أَذَّنَ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ لَمْ يَقُلْ إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ حَدِيثُ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ وَأَخْطَأَ فِيهِ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 203

کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل رات ہی میں اذان دے دینے کا بیان​ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:' بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں ، لہذا تم کھاتے پیتے رہو، جب تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان نہ سن لو'۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابن مسعود ، عائشہ ، انیسہ ، انس ، ابوذر اور سمرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۳- رات ہی میں اذان کہہ دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے،بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر رات باقی ہوتبھی مؤذن اذان کہہ دے تو کافی ہے، اسے دہرانے کی ضرورت نہیں،مالک ، ابن مبارک ، شافعی ،احمداور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب وہ رات میں اذان دے دے تو اسے دہرائے ۱؎ ،یہی سفیان ثوری کہتے ہیں، ۴- حماد بن سلمہ نے بطریق ایوب عن نافع عن ابن عمر روایت کی ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ نے رات ہی میں اذان دے دی ، تو نبی اکرمﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ پکارکرکہہ دیں کہ بندہ سوگیاتھا۔ یہ حدیث غیرمحفوظ ہے،صحیح وہ روایت ہے جسے عبیداللہ بن عمر وغیرہ نے بطریق نافع عن ابن عمر روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:' بلال رات ہی میں ا ذان د ے د یتے ہیں ، لہذا تم کھاتے پیتے رہو،جب تک کہ ابن ام مکتوم اذان نہ دے دیں،اور عبدالعزیز بن ابی روّاد نے نافع سے روایت کی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے مؤذن نے رات ہی میں اذان دے دی توعمرنے اسے حکم دیا کہ وہ اذان دہرائے،یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ نافع اورعمر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اور شاید حماد بن سلمہ ،کی مرادیہی حدیث ۲؎ ہو، صحیح عبیداللہ بن عمردوسرے رواۃ کی روایت ہے جسے ان لوگوں نے نافع سے ، اورنافع نے ابن عمر سے اور زہری نے سالم سے اورسالم نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: بلا ل رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں، ۵- ـ اگر حماد کی حدیث صحیح ہوتی تو اس حدیث کاکوئی معنی نہ ہوتا، جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' بلال رات ہی میں اذان دیتے ہیں ، آپ نے لوگوں کوآنے والے زمانے کے بارے میں حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں' اور اگر آپ طلوع فجرسے پہلے اذان دے دینے پر انہیں اذان لوٹانے کا حکم دیتے تو آپ یہ نہ فرماتے کہ ' بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں'، علی بن مدینی کہتے ہیں: حماد بن سلمہ والی حدیث جسے انہوں نے ایوب سے، اورایوب نے نافع سے، اورنافع نے ابن عمر سے اور عمرنے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے غیر محفوظ ہے، حماد بن سلمہ سے اس میں چوک ہوئی ہے۔
تشریح : ۱؎ : اوریہی راجح ہے ، کیونکہ عبداللہ ابن ام مکتوم کی اذان سحری کے غرض سے تھی، نیز آپﷺنے اس پر اکتفاء بھی نہیں کیا، بلکہ صلاۃ فجر کے لیے بلال اذان دیاکرتے ۔ ۲؎ : شاید حماد بن سلمہ کے پیش نظرعمروالایہی اثررہاہو یعنی انہیں اس کے مرفوع ہو نے کا وہم ہوگیا ہو، گویا انہیں یوں کہنا چاہئے کہ عمرکے مؤذن نے رات ہی میں اذان دے دی تو عمرنے انہیں اذان لوٹانے کا حکم دیا، لیکن وہ وہم کے شکارہوگئے اور اس کے بجائے انہوں نے یوں کہہ دیا کہ بلال نے رات میں اذان دے دی تو نبی اکرمﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ پکارکرکہہ دیں کہ بندہ سوگیاتھا۔ ۱؎ : اوریہی راجح ہے ، کیونکہ عبداللہ ابن ام مکتوم کی اذان سحری کے غرض سے تھی، نیز آپﷺنے اس پر اکتفاء بھی نہیں کیا، بلکہ صلاۃ فجر کے لیے بلال اذان دیاکرتے ۔ ۲؎ : شاید حماد بن سلمہ کے پیش نظرعمروالایہی اثررہاہو یعنی انہیں اس کے مرفوع ہو نے کا وہم ہوگیا ہو، گویا انہیں یوں کہنا چاہئے کہ عمرکے مؤذن نے رات ہی میں اذان دے دی تو عمرنے انہیں اذان لوٹانے کا حکم دیا، لیکن وہ وہم کے شکارہوگئے اور اس کے بجائے انہوں نے یوں کہہ دیا کہ بلال نے رات میں اذان دے دی تو نبی اکرمﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ پکارکرکہہ دیں کہ بندہ سوگیاتھا۔