جامع الترمذي - حدیث 1949

أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الْعَفْوِ عَنِ الْخَادِمِ​ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِي هَانِئٍ الْخَوْلَانِيِّ عَنْ عَبَّاسٍ الْحَجْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَمْ أَعْفُو عَنْ الْخَادِمِ فَصَمَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَمْ أَعْفُو عَنْ الْخَادِمِ فَقَالَ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَرَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ أَبِي هَانِئٍ الْخَوْلَانِيِّ نَحْوًا مِنْ هَذَا وَالْعَبَّاسُ هُوَ ابْنُ جُلَيْدٍ الْحَجْرِيُّ الْمِصْرِيُّ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ أَبِي هَانِئٍ الْخَوْلَانِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَهْبٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَقَالَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1949

کتاب: نیکی اورصلہ رحمی کے بیان میں خادم کی غلطی معاف کرنے کابیان​ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرم ﷺ کے پاس ایک آدمی نے آکر پوچھا: اللہ کے رسول! میں اپنے خادم کی غلطیوں کوکتنی بارمعاف کروں؟ آپﷺ اس شخص کے اس سوال پر خاموش رہے، اس نے پھر پوچھا: اللہ کے رسول ! میں اپنے خادم کی غلطیوں کو کتنی بارمعاف کروں؟ آپ نے فرمایا:' ہردن ۷۰(ستر)بارمعاف کرو'۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اسے عبداللہ بن وہب نے بھی ابوہانی خولانی سے اسی طرح روایت کیا ہے۔ اس سند سے بھی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اوربعض لوگوں نے یہ حدیث عبداللہ بن وہب سے اسی سند سے روایت کی ہے لیکن سند میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بجائے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کانام بیان کیا ہے۔
تشریح : نوٹ:(اس حدیث کے 'عبد اللہ بن عمر بن خطاب' یا 'عبد اللہ بن عمرو بن العاص' کی روایت سے ہونے میں اختلاف ہے جس کی طرف مؤلف نے اشارہ کردیا، مزی نے ابوداود کی طرف عبداللہ بن عمرو بن العاص کی روایت، اور ترمذی کی طرف عبد اللہ بن عمر ابن خطاب کی روایت کی نسبت کی ہے) نوٹ:(اس حدیث کے 'عبد اللہ بن عمر بن خطاب' یا 'عبد اللہ بن عمرو بن العاص' کی روایت سے ہونے میں اختلاف ہے جس کی طرف مؤلف نے اشارہ کردیا، مزی نے ابوداود کی طرف عبداللہ بن عمرو بن العاص کی روایت، اور ترمذی کی طرف عبد اللہ بن عمر ابن خطاب کی روایت کی نسبت کی ہے)