أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي النَّصِيحَةِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ عَنْ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدِّينُ النَّصِيحَةُ ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَنْ قَالَ لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَتَمِيمٍ الدَّارِيِّ وَجَرِيرٍ وَحَكِيمِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ عَنْ أَبِيهِ وَثَوْبَانَ
کتاب: نیکی اورصلہ رحمی کے بیان میں
خیرخواہی اوربھلائی کرنے کا بیان
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے تین مرتبہ فرمایا:' دین سراپاخیرخواہی ہے' ، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ (حکمرانوں)اور عام مسلمانوں کے لیے ' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، تمیم داری ، جریر، حکیم بن ابی یزیدعن أبیہ اور ثوبان رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
تشریح :
۱؎ : اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنااوراس کی ذات پر صحیح طورپر ایمان رکھنا یہ اللہ کے ساتھ خیرخواہی ہے،جس کا فائدہ انسان کو خود اپنی ذات کو پہنچتاہے ، ورنہ اللہ عزوجل کی خیرخواہی کون کرسکتاہے ، اس کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ نصیحت اور خیرخواہی کا حق اللہ کے لیے ہے جو وہ اپنی مخلوق سے کرتاہے ، اور اس کی کتاب (قرآن) کے ساتھ خیر خواہی اس کے احکام پر عمل کرناہے،اس میں غوروفکراور تدبرکرنا اس کی تعلیمات کو پھیلانا اس میں تحریف سے بچنا ، اس کی تصدیق کرنے کے ساتھ اس کی تلاوت کا التزام کرناہے، رسول اللہﷺ کی سنتوں کاپابندہونا، اس کی رسالت کی تصدیق کرنا اور اس کی فرماں برداری کرنا یہ رسول کی خیر خواہی ہے، مسلمان حکمراں اور ائمہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ حق اور غیر معصیت میں ان کی اعانت و اطاعت کی جائے، سیدھے راستے سے انحراف کرنے کی صورت میں ان کے خلاف خروج و بغاوت سے گریز کرتے ہوئے انہیں معروف کا حکم دیاجائے، سوائے اس کے کہ ان سے صریحاً کفر کا اظہار ہوتو ایسی صورت میں ترک اعانت ضروری ہے، عام مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ دنیا وآخرت سے متعلق جو بھی خیراوربھلائی کے کام ہیں ان سے انہیں آگاہ کیاجائے، اور شروفساد کے کاموں میں ان کی صحیح رہنمائی کی جائے، اور برائی سے روکاجائے۔
۱؎ : اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنااوراس کی ذات پر صحیح طورپر ایمان رکھنا یہ اللہ کے ساتھ خیرخواہی ہے،جس کا فائدہ انسان کو خود اپنی ذات کو پہنچتاہے ، ورنہ اللہ عزوجل کی خیرخواہی کون کرسکتاہے ، اس کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ نصیحت اور خیرخواہی کا حق اللہ کے لیے ہے جو وہ اپنی مخلوق سے کرتاہے ، اور اس کی کتاب (قرآن) کے ساتھ خیر خواہی اس کے احکام پر عمل کرناہے،اس میں غوروفکراور تدبرکرنا اس کی تعلیمات کو پھیلانا اس میں تحریف سے بچنا ، اس کی تصدیق کرنے کے ساتھ اس کی تلاوت کا التزام کرناہے، رسول اللہﷺ کی سنتوں کاپابندہونا، اس کی رسالت کی تصدیق کرنا اور اس کی فرماں برداری کرنا یہ رسول کی خیر خواہی ہے، مسلمان حکمراں اور ائمہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ حق اور غیر معصیت میں ان کی اعانت و اطاعت کی جائے، سیدھے راستے سے انحراف کرنے کی صورت میں ان کے خلاف خروج و بغاوت سے گریز کرتے ہوئے انہیں معروف کا حکم دیاجائے، سوائے اس کے کہ ان سے صریحاً کفر کا اظہار ہوتو ایسی صورت میں ترک اعانت ضروری ہے، عام مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ دنیا وآخرت سے متعلق جو بھی خیراوربھلائی کے کام ہیں ان سے انہیں آگاہ کیاجائے، اور شروفساد کے کاموں میں ان کی صحیح رہنمائی کی جائے، اور برائی سے روکاجائے۔