أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي قَطِيعَةِ الرَّحِمِ صحيح حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ اشْتَكَى أَبُو الرَّدَّادِ اللَّيْثِيُّ فَعَادَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فَقَالَ خَيْرُهُمْ وَأَوْصَلُهُمْ مَا عَلِمْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَنَا اللَّهُ وَأَنَا الرَّحْمَنُ خَلَقْتُ الرَّحِمَ وَشَقَقْتُ لَهَا مِنْ اسْمِي فَمَنْ وَصَلَهَا وَصَلْتُهُ وَمَنْ قَطَعَهَا بَتَتُّهُ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَابْنِ أَبِي أَوْفَى وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ سُفْيَانَ عَنْ الزُّهْرِيِّ حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَرَوَى مَعْمَرٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ رَدَّادٍ اللَّيْثِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَمَعْمَرٍ كَذَا يَقُولُ قَالَ مُحَمَّدٌ وَحَدِيثُ مَعْمَرٍ خَطَأٌ
کتاب: نیکی اورصلہ رحمی کے بیان میں
قطع رحمی(ناتا توڑنے) پرواردوعیدکابیان
ابوسلمہ کہتے ہیں: ابوالرداد لیثی بیمار ہوگئے ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کو گئے ، ابوالرداء نے کہا: میرے علم کے مطابق ابومحمد(عبدالرحمن بن عوف )لوگوں میں سب سے اچھے اورصلہ رحمی کرنے والے ہیں، عبدالرحمن بن عوف نے کہا: میں نے رسول اللہﷺکو فرماتے سنا:' اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے رحم(یعنی رشتے ناتے) کو پیداکیا ہے ، اوراس کا نام اپنے نام سے (مشتق کرکے) رکھا ہے ، اس لیے جو اسے جوڑے گا میں اسے (اپنی رحمت سے ) جوڑے رکھوں گااورجو اسے کاٹے گا میں بھی اسے (اپنی رحمت سے) کاٹ دوں گا'۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس باب میں ابوسعیدخدری ، ابن ابی اوفی ، عامربن ربیعہ ، ابوہریرہ اورجبیر بن مطعم رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔۲- زہری سے مروی سفیان کی حدیث صحیح ہے ، معمرنے زہری سے یہ حدیث 'عن أبی سلمۃ، عن رداد اللیثی ۱؎ ، عن عبد الرحمن بن عوف' کی سند سے روایت کی ہے ، معمرنے (سندبیان کرتے ہوئے) ایساہی کہا ہے ، محمد (بخاری) کہتے ہیں: معمرکی حدیث میں خطاہے، (دونوں سندوں میں فرق واضح ہے)۔
تشریح :
۱؎ : سند میں ابوالرداد ہے ، اور امام ترمذی کے کلام میں نیچے 'رداد 'آیاہے ، حافظ ابن حجرفرماتے ہیں کہ 'رداد'کو بعض لوگوں نے 'ابوالرداد' کہا ہے ،اور یہ زیادہ صحیح ہے ، (تقریب التہذیب )۔
۱؎ : سند میں ابوالرداد ہے ، اور امام ترمذی کے کلام میں نیچے 'رداد 'آیاہے ، حافظ ابن حجرفرماتے ہیں کہ 'رداد'کو بعض لوگوں نے 'ابوالرداد' کہا ہے ،اور یہ زیادہ صحیح ہے ، (تقریب التہذیب )۔