جامع الترمذي - حدیث 1900

أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ مِنْ الْفَضْلِ فِي رِضَا الْوَالِدَيْنِ​ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رِضَى الرَّبِّ فِي رِضَى الْوَالِدِ وَسَخَطُ الرَّبِّ فِي سَخَطِ الْوَالِدِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ وَهَذَا أَصَحُّ قَالَ أَبُو عِيسَى وَهَكَذَا رَوَى أَصْحَابُ شُعْبَةَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو مَوْقُوفًا وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ غَيْرَ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ شُعْبَةَ وَخَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ثِقَةٌ مَأْمُونٌ قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى يَقُولُ مَا رَأَيْتُ بِالْبَصْرَةِ مِثْلَ خَالِدِ بْنِ الْحَارِثِ وَلَا بِالْكُوفَةِ مِثْلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1900

کتاب: نیکی اورصلہ رحمی کے بیان میں ماں باپ کی رضامندی کی فضیلت کابیان​ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے ان کے پاس آکرکہا: میری ایک بیوی ہے ، اورمیری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے ، (میں کیا کروں ؟ ) ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے: باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے ، اگرتم چاہوتو اس دروازہ کو ضائع کردواورچاہو تو اس کی حفاظت کرو ۱؎ ۔ سفیان بن عیینہ نے کبھی إن امی( میری ماں) کہا اور کبھی إن أب (میرا باپ) کہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح ہے۔
تشریح : ۱؎ : یعنی ماں باپ کے حقوق کی حفاظت کی جائے اور اس کا خاص خیال رکھاجائے، اگر والد کو جنس مان لیاجائے تو ماں باپ دونوں مراد ہوں گے، یا حدیث کا یہ مفہوم ہے کہ والد کے مقام و مرتبہ کا یہ عالم ہے تو والدہ کے مقام کا کیا حال ہوگا۔ ۱؎ : یعنی ماں باپ کے حقوق کی حفاظت کی جائے اور اس کا خاص خیال رکھاجائے، اگر والد کو جنس مان لیاجائے تو ماں باپ دونوں مراد ہوں گے، یا حدیث کا یہ مفہوم ہے کہ والد کے مقام و مرتبہ کا یہ عالم ہے تو والدہ کے مقام کا کیا حال ہوگا۔