جامع الترمذي - حدیث 190

أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي بَدْءِ الأَذَانِ​ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنَا نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ الْمُسْلِمُونَ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ يَجْتَمِعُونَ فَيَتَحَيَّنُونَ الصَّلَوَاتِ وَلَيْسَ يُنَادِي بِهَا أَحَدٌ فَتَكَلَّمُوا يَوْمًا فِي ذَلِكَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارَى وَقَالَ بَعْضُهُمْ اتَّخِذُوا قَرْنًا مِثْلَ قَرْنِ الْيَهُودِ قَالَ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَوَلَا تَبْعَثُونَ رَجُلًا يُنَادِي بِالصَّلَاةِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا بِلَالُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلَاةِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 190

کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل اذان کی ابتدا کا بیان​ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: جس وقت مسلمان مدینہ آئے تووہ اکٹھے ہوکر اوقاتِ صلاۃ کا اندازہ لگاتے تھے، کوئی صلاۃ کے لیے پکار نہ لگاتا تھا، ایک دن ان لوگوں نے اس سلسلے میں گفتگو کی ۱؎ چنانچہ ان میں سے بعض لوگوں نے کہا: نصاریٰ کے ناقوس کی طرح کوئی ناقوس بنالو، بعض نے کہا:کہ تم یہودیوں کے قرن کی طرح کوئی قرن(یعنی کسی جانور کا سینگ) بنالو۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اس پرعمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا تم کوئی آدمی نہیں بھیج سکتے جو صلاۃ کے لیے پکارے۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: 'بلال اٹھو جاؤ صلاۃ کے لیے پکارو'۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کی (اُس) روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔(جسے بخاری ومسلم اور دیگرمحدثین نے روایت کیا ہے) 2؎ ۔
تشریح : ۱؎ : یہ گفتگومدینہ میں صحابہ کرام سے ہجرت کے پہلے سال ہوئی تھی، اس میں بعض لوگوں نے صلاۃ کے لیے ناقوس بجانے کا اور بعض نے اونچائی پر آگ روشن کر نے کااور بعض نے بوق (بگل)استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا، اسی دوران عمر کی یہ تجویز آئی کہ کسی کو صلاۃ کے لیے پکارنے پر مامور کردیا جائے؛ چنانچہ نبی اکرمﷺ کو یہ رائے پسند آئی اورآپ نے بلال کو باوازبلند'الصلاة جامعة' کہنے کا حکم دیا۔اس کے بعدعبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے خواب میں اذان کے کلمات کسی سے سیکھے اورجاکرخواب بیان کیا، اسی کے بعد موجودہ اذان رائج ہوئی۔ ۲؎ : دیکھئے صحیح البخاری حدیث ۶۰۴وصحیح مسلم حدیث ۸۳۷ ۱؎ : یہ گفتگومدینہ میں صحابہ کرام سے ہجرت کے پہلے سال ہوئی تھی، اس میں بعض لوگوں نے صلاۃ کے لیے ناقوس بجانے کا اور بعض نے اونچائی پر آگ روشن کر نے کااور بعض نے بوق (بگل)استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا، اسی دوران عمر کی یہ تجویز آئی کہ کسی کو صلاۃ کے لیے پکارنے پر مامور کردیا جائے؛ چنانچہ نبی اکرمﷺ کو یہ رائے پسند آئی اورآپ نے بلال کو باوازبلند'الصلاة جامعة' کہنے کا حکم دیا۔اس کے بعدعبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے خواب میں اذان کے کلمات کسی سے سیکھے اورجاکرخواب بیان کیا، اسی کے بعد موجودہ اذان رائج ہوئی۔ ۲؎ : دیکھئے صحیح البخاری حدیث ۶۰۴وصحیح مسلم حدیث ۸۳۷