جامع الترمذي - حدیث 1898

أَبْوَابُ البِرِّ وَالصِّلَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي بِرِّ الْوَالِدَيْنِ​ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ الْمَسْعُودِيِّ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ قَالَ الصَّلَاةُ لِمِيقَاتِهَا قُلْتُ ثُمَّ مَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ قُلْتُ ثُمَّ مَاذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ سَكَتَ عَنِّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَوْ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي قَالَ أَبُو عِيسَى وَأَبُو عَمْرٍو الشَّيْبَانِيُّ اسْمُهُ سَعْدُ بْنُ إِيَاسٍ وَهُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ رَوَاهُ الشَّيْبَانِيُّ وَشُعْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ الْعَيْزَارِ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1898

کتاب: نیکی اورصلہ رحمی کے بیان میں ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کابیان​ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا: اللہ کے رسول! کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا:' وقت پرصلاۃ اداکرنا'، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! پھر کو ن سا عمل زیادہ بہترہے ؟ آپ نے فرمایا:' ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا '،میں نے پوچھا: اللہ کے رسول!پھر کون ساعمل؟ آپ نے فرمایا: ' اللہ کی راہ میں جہادکرنا، پھررسول اللہ ﷺ خاموش ہوگئے ، حالانکہ اگر میں زیادہ پوچھتاتوآپ زیادہ بتاتے ' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اسے ابوعمرو شیبانی ، شعبہ اورکئی لوگوں نے ولیدبن عیزارسے روایت کی ہے، ۳- یہ حدیث ابوعمروشیبانی کے واسطہ سے ابن مسعودسے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے ۔
تشریح : ۱؎ : بعض احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ جہاد سب سے افضل وبہترعمل ہے، بعض سے معلوم ہوتاہے کہ ماں باپ کے ساتھ اچھابرتاؤ کرنا یہ سب سے اچھاکام ہے، اور بعض سے معلوم ہوتاہے کہ زکاۃ سب سے اچھاکام ہے، جب کہ اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ صلاۃ سب سے افضل عمل ہے، اسی لیے اس کی توجیہ میں مختلف اقوال وارد ہیں، سب سے بہتر توجیہ یہ ہے کہ 'افضل اعمال' سے پہلے حرف ' مِن' محذوف مان لیاجائے،گویا مفہوم یہ ہوگا کہ یہ سب افضل اعمال میں سے ہیں، دوسری توجیہ یہ ہے کہ ا س کا تعلق سائل کے احوال اور وقت کے اختلاف سے ہے، یعنی سائل اور وقت کے تقاضے کا خیال رکھتے ہوئے اس کے مناسب جواب دیاگیا۔اوراپنی جگہ پریہ سب اچھے کام ہیں۔ ۱؎ : بعض احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ جہاد سب سے افضل وبہترعمل ہے، بعض سے معلوم ہوتاہے کہ ماں باپ کے ساتھ اچھابرتاؤ کرنا یہ سب سے اچھاکام ہے، اور بعض سے معلوم ہوتاہے کہ زکاۃ سب سے اچھاکام ہے، جب کہ اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ صلاۃ سب سے افضل عمل ہے، اسی لیے اس کی توجیہ میں مختلف اقوال وارد ہیں، سب سے بہتر توجیہ یہ ہے کہ 'افضل اعمال' سے پہلے حرف ' مِن' محذوف مان لیاجائے،گویا مفہوم یہ ہوگا کہ یہ سب افضل اعمال میں سے ہیں، دوسری توجیہ یہ ہے کہ ا س کا تعلق سائل کے احوال اور وقت کے اختلاف سے ہے، یعنی سائل اور وقت کے تقاضے کا خیال رکھتے ہوئے اس کے مناسب جواب دیاگیا۔اوراپنی جگہ پریہ سب اچھے کام ہیں۔