أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الصَّلاَةِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ صحيح حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ لِمَنْ شَاءَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ قَبْلَ الْمَغْرِبِ فَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ الصَّلَاةَ قَبْلَ الْمَغْرِبِ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ كَانُوا يُصَلُّونَ قَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ و قَالَ أَحْمَدُ وَإِسْحَقُ إِنْ صَلَّاهُمَا فَحَسَنٌ وَهَذَا عِنْدَهُمَا عَلَى الِاسْتِحْبَابِ
کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل
مغرب سے پہلے نفل صلاۃ پڑھنے کا بیان
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:'جونفلی صلاۃ پڑھنا چاہے اس کے لیے ہردو اذان ۱؎ کے درمیان صلاۃ ہے'۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام کے درمیان مغرب سے پہلے کی صلاۃ کے سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے، ان میں سے بعض کے نزدیک مغرب سے پہلے صلاۃ نہیں،اور صحابہ میں سے کئی لوگوں سے مروی ہے کہ وہ لوگ مغرب سے پہلے اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعتیں پڑھتے تھے ،۴- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی انہیں پڑھے تو بہتر ہے، اور یہ ان دونوں کے نزدیک مستحب ہے۔
تشریح :
۱؎ : ہردواذان سے مراد اذان اوراقامت ہے، یہ حدیث مغرب کی اذان کے بعددورکعت پڑھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے،اور یہ کہنا کہ یہ منسوخ ہے قابل التفات نہیں کیونکہ اس پر کوئی دلیل نہیں، اسی طرح یہ کہنا کہ اس سے مغرب میں تاخیر ہوجائے گی صحیح نہیں کیونکہ یہ صلاۃ بہت ہلکی پڑھی جاتی ہے، مشکل سے دوتین منٹ لگتے ہیں جس سے مغرب کے اوّل وقت پر پڑھنے میں کوئی فرق نہیں آتا اس سے صلاۃ مؤخرنہیں ہوتی۔(صحیح بخاری کی ایک روایت میں تو امرکا صیغہ ہے'مغرب سے پہلے صلاۃ پڑھو')
۱؎ : ہردواذان سے مراد اذان اوراقامت ہے، یہ حدیث مغرب کی اذان کے بعددورکعت پڑھنے کے جواز پر دلالت کرتی ہے،اور یہ کہنا کہ یہ منسوخ ہے قابل التفات نہیں کیونکہ اس پر کوئی دلیل نہیں، اسی طرح یہ کہنا کہ اس سے مغرب میں تاخیر ہوجائے گی صحیح نہیں کیونکہ یہ صلاۃ بہت ہلکی پڑھی جاتی ہے، مشکل سے دوتین منٹ لگتے ہیں جس سے مغرب کے اوّل وقت پر پڑھنے میں کوئی فرق نہیں آتا اس سے صلاۃ مؤخرنہیں ہوتی۔(صحیح بخاری کی ایک روایت میں تو امرکا صیغہ ہے'مغرب سے پہلے صلاۃ پڑھو')