أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي تَعْجِيلِ الصَّلاَةِ إِذَا أَخَّرَهَا الإِمَامُ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا ذَرٍّ أُمَرَاءُ يَكُونُونَ بَعْدِي يُمِيتُونَ الصَّلَاةَ فَصَلِّ الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا فَإِنْ صُلِّيَتْ لِوَقْتِهَا كَانَتْ لَكَ نَافِلَةً وَإِلَّا كُنْتَ قَدْ أَحْرَزْتَ صَلَاتَكَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ الصَّلَاةَ لِمِيقَاتِهَا إِذَا أَخَّرَهَا الْإِمَامُ ثُمَّ يُصَلِّي مَعَ الْإِمَامِ وَالصَّلَاةُ الْأُولَى هِيَ الْمَكْتُوبَةُ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَأَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ حَبِيبٍ
کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل
جب امام صلاۃ دیر سے پڑھے تواُسے جلد پڑھ لینے کا بیان
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :'ابوذر ! میرے بعد کچھ ایسے امراء (حکام) ہوں گے جو صلاۃ کو مارڈالیں گے ۱؎ ، تو تم صلاۃ کو اس کے وقت پر پڑھ لینا ۲ ؎ صلاۃ اپنے وقت پر پڑھ لی گئی تو امامت والی صلاۃ تمہارے لیے نفل ہوگی، ورنہ تم نے اپنی صلاۃ محفوظ کرہی لی ہے'۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عبداللہ بن مسعود اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے،۳- یہی اہل علم میں سے کئی لوگوں کا قول ہے، یہ لوگ مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی صلاۃ اپنے وقت پر پڑھ لے جب امام اسے مؤخر کرے، پھر وہ امام کے ساتھ بھی پڑھے اور پہلی صلاۃ ہی اکثر اہل علم کے نزدیک فرض ہوگی ۳؎ ۔
تشریح :
۱؎ : یعنی اسے دیرکرکے پڑھیں گے۔
۲؎ : یہی صحیح ہے اور باب کی حدیث اس بارے میں نص صریح ہے، اور جو لوگ اس کے خلاف کہتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔
۳؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام جب صلاۃ کو اس کے اوّل وقت سے دیر کرکے پڑھے تو مقتدی کے لیے مستحب ہے کہ اسے اوّل وقت میں اکیلے پڑھ لے، ابوداودکی روایت میں 'صل الصلاة لوقتها فإن أدركتها معهم فصلها فإنها لك نافلة'(تم صلاۃ وقت پرپڑھ لو پھراگرتم ان کے ساتھ یہی صلاۃ پاؤتو دوبارہ پڑھ لیا کرو، یہ تمہارے لیے نفل ہوگی، ظاہرحدیث عام ہے ساری صلاتیں اس حکم میں داخل ہیں خواہ وہ فجرکی ہو یا عصرکی یامغرب کی، بعضوں نے اسے ظہراورعشاء کے ساتھ خاص کیا ہے، وہ کہتے ہیں فجراور عصرکے بعدنفل پڑھنا درست نہیں اورمغرب دوبارہ پڑھنے سے وہ جفت ہوجائے گی۔
۱؎ : یعنی اسے دیرکرکے پڑھیں گے۔
۲؎ : یہی صحیح ہے اور باب کی حدیث اس بارے میں نص صریح ہے، اور جو لوگ اس کے خلاف کہتے ہیں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں۔
۳؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام جب صلاۃ کو اس کے اوّل وقت سے دیر کرکے پڑھے تو مقتدی کے لیے مستحب ہے کہ اسے اوّل وقت میں اکیلے پڑھ لے، ابوداودکی روایت میں 'صل الصلاة لوقتها فإن أدركتها معهم فصلها فإنها لك نافلة'(تم صلاۃ وقت پرپڑھ لو پھراگرتم ان کے ساتھ یہی صلاۃ پاؤتو دوبارہ پڑھ لیا کرو، یہ تمہارے لیے نفل ہوگی، ظاہرحدیث عام ہے ساری صلاتیں اس حکم میں داخل ہیں خواہ وہ فجرکی ہو یا عصرکی یامغرب کی، بعضوں نے اسے ظہراورعشاء کے ساتھ خاص کیا ہے، وہ کہتے ہیں فجراور عصرکے بعدنفل پڑھنا درست نہیں اورمغرب دوبارہ پڑھنے سے وہ جفت ہوجائے گی۔