أَبْوَابُ اللِّبَاسِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي لُبْسِ الْفِرَاءِ حسن حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ هَارُونَ الْبُرْجُمِيُّ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ سَلْمَانَ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ السَّمْنِ وَالْجُبْنِ وَالْفِرَاءِ فَقَالَ الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ قَالَ أَبُو عِيسَى وَفِي الْبَاب عَنْ الْمُغِيرَةِ وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَرَوَى سُفْيَانُ وَغَيْرُهُ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ سَلْمَانَ قَوْلَهُ وَكَأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ الْمَوْقُوفَ أَصَحُّ وَسَأَلْتُ الْبُخَارِيَّ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ مَا أُرَاهُ مَحْفُوظًا رَوَى سُفْيَانُ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ سَلْمَانَ مَوْقُوفًا قَالَ الْبُخَارِيُّ وَسَيْفُ بْنُ هَارُونَ مُقَارِبُ الْحَدِيثِ وَسَيْفُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَاصِمٍ ذَاهِبُ الْحَدِيثِ
کتاب: لباس کے احکام ومسائل
چمڑے کا لباس( پوستین) پہننے کا بیان
سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ سے گھی، پنیراورپوستین (چمڑے کالباس) کے بارے میں پوچھا گیا توآپ نے فرمایا: 'حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال کردیا، اور حرا م وہ ہے ، جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام کردیا اورجس چیزکے بارے میں وہ خاموش رہا وہ اس قبیل سے ہے جسے اللہ نے معاف کردیاہے ' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے ، ہم اسے صرف اسی سندسے مرفوع جانتے ہیں،۲- اسے سفیان نے بسندسلیمان التیمی سے عن أبی عثمان عن سلمان موقوفاً روایت کیا ہے، گویا یہ موقوف حدیث زیادہ صحیح ہے، اس باب میں مغیرہ سے بھی حدیث آئی ہے ،۳- میں نے امام بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا: تو انہوں نے کہا: میں اس کو محفوظ نہیں سمجھتاہوں، سفیان نے بسند سلیمان التیمی عن أبی عثمان عن سلمان موقوفاروایت کی ہے ،۴- امام بخاری کہتے ہیں : سیف بن ہارون مقارب الحدیث ہیں، اورسیف بن محمدعاصم سے روایت کرنے میں ذاہب الحدیث ہیں۔
تشریح :
۱؎ : یعنی اس کا استعمال جائز اور مباح ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہا ء نے یہ اصول اپنایا کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے حلال و مباح ہیں، اس کی تائید اس آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے {هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً} لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی حرمت سے متعلق کوئی دلیل نہ ہو، کیوں کہ حرمت کی دلیل آجانے کے بعد وہ حرام ہوجائیں گی، فقہاء کے مذکورہ اصول اور مذکورہ آیت سے بعض نے پان، تمباکو اور بیڑی سگریٹ کے مباح ہونے پر استدلال کیا ہے، لیکن یہ استدلال درست نہیں ہے، کیوں کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہیں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ ضرررساں نہ ہوں، اگر دیر یا سویر نقصان ظاہر ہوتاہے تو ایسی صورت میں وہ ہرگز مباح نہیں ہوں گی، اور مذکورہ چیزوں میں جو ضرر ونقصان ہے یہ کسی سے مخفی نہیں، نیز ان کا استعمال 'تبذیر' (اسراف اورفضول خرچی) کے باب میں آتاہے، لہذا ان کی حرمت میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔
نوٹ:(شواہد کی بناپر یہ حدیث حسن ہے ، ورنہ اس کے راوی سیف سخت ضعیف ہیں ، دیکھئے: غایۃ المرام رقم: ۳، وتراجع الألبانی ۴۲۸)
۱؎ : یعنی اس کا استعمال جائز اور مباح ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہا ء نے یہ اصول اپنایا کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے حلال و مباح ہیں، اس کی تائید اس آیت کریمہ سے بھی ہوتی ہے {هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً} لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی حرمت سے متعلق کوئی دلیل نہ ہو، کیوں کہ حرمت کی دلیل آجانے کے بعد وہ حرام ہوجائیں گی، فقہاء کے مذکورہ اصول اور مذکورہ آیت سے بعض نے پان، تمباکو اور بیڑی سگریٹ کے مباح ہونے پر استدلال کیا ہے، لیکن یہ استدلال درست نہیں ہے، کیوں کہ چیزیں اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہیں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ ضرررساں نہ ہوں، اگر دیر یا سویر نقصان ظاہر ہوتاہے تو ایسی صورت میں وہ ہرگز مباح نہیں ہوں گی، اور مذکورہ چیزوں میں جو ضرر ونقصان ہے یہ کسی سے مخفی نہیں، نیز ان کا استعمال 'تبذیر' (اسراف اورفضول خرچی) کے باب میں آتاہے، لہذا ان کی حرمت میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔
نوٹ:(شواہد کی بناپر یہ حدیث حسن ہے ، ورنہ اس کے راوی سیف سخت ضعیف ہیں ، دیکھئے: غایۃ المرام رقم: ۳، وتراجع الألبانی ۴۲۸)