أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الْوَقْتِ الأَوَّلِ مِنْ الْفَضْلِ ضعيف حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ يَا عَلِيُّ ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْهَا الصَّلَاةُ إِذَا آنَتْ وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَا كُفْئًا قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ
کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل
اوّل وقت میں صلاۃ پڑھنے کی فضیلت کا بیان
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ان سے فرمایا:' علی! تین چیزوں میں دیر نہ کرو: صلاۃ کو جب اس کا وقت ہوجائے، جنازہ کوجب آجائے، اور بیوہ عورت (کے نکاح کو) جب تمہیں اس کا کوئی کفو (ہمسر)مل جائے'۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تشریح :
نوٹ:(سند میں سعید بن عبد اللہ جہنی لین الحدیث ہیں، اور ان کی عمربن علی سے ملاقات نہیں ہے، جیساکہ مؤلف نے خود کتاب ا لجنائز میں تصریح کی ہے ، مگر حدیث کا معنی صحیح ہے)
نوٹ:(سند میں سعید بن عبد اللہ جہنی لین الحدیث ہیں، اور ان کی عمربن علی سے ملاقات نہیں ہے، جیساکہ مؤلف نے خود کتاب ا لجنائز میں تصریح کی ہے ، مگر حدیث کا معنی صحیح ہے)