أَبْوَابُ الْجِهَادِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ مَنْ يُسْتَعْمَلُ عَلَى الْحَرْبِ ضعيف حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ حَدَّثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ الْجَوَّابِ أَبُو الْجَوَّابِ عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ الْبَرَاءِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ جَيْشَيْنِ وَأَمَّرَ عَلَى أَحَدِهِمَا عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَعَلَى الْآخَرِ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ فَقَالَ إِذَا كَانَ الْقِتَالُ فَعَلِيٌّ قَالَ فَافْتَتَحَ عَلِيٌّ حِصْنًا فَأَخَذَ مِنْهُ جَارِيَةً فَكَتَبَ مَعِي خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشِي بِهِ فَقَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ الْكِتَابَ فَتَغَيَّرَ لَوْنُهُ ثُمَّ قَالَ مَا تَرَى فِي رَجُلٍ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ قَالَ قُلْتُ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِ وَإِنَّمَا أَنَا رَسُولٌ فَسَكَتَ قَالَ أَبُو عِيسَى وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْأَحْوَصِ بْنِ جَوَّابٍ قَوْلُهُ يَشِي بِهِ يَعْنِي النَّمِيمَةَ
کتاب: جہاد کے احکام ومسائل
جنگ کے لیے امیرمقررکرنے کا بیان
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ نے دولشکرروانہ کیا ۱؎ ، ایک پر علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے پرخالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو امیرمقررکیا اورفرمایا :'جب جنگ ہوتوعلی امیرہوں گے ۲؎ '، علی رضی اللہ عنہ نے ایک قلعہ فتح کیا اور اس میں سے ایک لونڈی لے لی، خالدبن ولید رضی اللہ عنہ نے مجھ کو خط کے ساتھ نبی اکرمﷺ کے پاس روانہ کیا ، میں نبی اکرمﷺ کے پاس آیا ، آپ نے خط پڑھا تو آپ کا رنگ متغیرہوگیا، پھر آپ نے فرمایا:' اس آدمی کے بارے میں تمہاراکیا خیال ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتاہے، اور اللہ اور اس کے رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: میں اللہ اوراس کے رسول کے غصہ سے اللہ کی پناہ مانگتاہوں میں توصرف قاصدہوں، لہذا آپ خاموش ہوگئے ۳؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اس کو صرف احوص بن جواب کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں ابن عمرسے بھی حدیث مروی ہے، ۳- ' یشی بہ' کا معنی چغل خوری ہے۔
تشریح :
۱؎ : یہ دونوں لشکر یمن کی طرف روانہ کئے گئے تھے۔
۲؎ : یعنی پہنچتے ہی اگر دشمن سے مقابلہ شروع ہوجائے تو علی رضی اللہ عنہ اس کے امیر ہوں گے، اور اگر دونوں لشکرعلیحدہ علیحدہ رہیں تو ایک کے علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے کے خالد رضی اللہ عنہ امیر ہوں گے۔
3؎ : یعنی ایک آدمی کی ماتحتی میں نبی اکرمﷺ نے مجھے بھیجا، اس کی ماتحتی قبول کرتے ہوئے اس کی اطاعت کی اور اس کے قلم سے یہ خط لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اب اس میں میرا کیا قصور ہے یہ سن کر آپ خاموش رہے۔
۱؎ : یہ دونوں لشکر یمن کی طرف روانہ کئے گئے تھے۔
۲؎ : یعنی پہنچتے ہی اگر دشمن سے مقابلہ شروع ہوجائے تو علی رضی اللہ عنہ اس کے امیر ہوں گے، اور اگر دونوں لشکرعلیحدہ علیحدہ رہیں تو ایک کے علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے کے خالد رضی اللہ عنہ امیر ہوں گے۔
3؎ : یعنی ایک آدمی کی ماتحتی میں نبی اکرمﷺ نے مجھے بھیجا، اس کی ماتحتی قبول کرتے ہوئے اس کی اطاعت کی اور اس کے قلم سے یہ خط لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اب اس میں میرا کیا قصور ہے یہ سن کر آپ خاموش رہے۔