أَبْوَابُ فَضَائِلِ الْجِهَادِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي ثَوَابِ الشُّهَدَاءِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ طَلْحَةَ الْيَرْبُوعِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُكَفِّرُ كُلَّ خَطِيئَةٍ فَقَالَ جِبْرِيلُ إِلَّا الدَّيْنَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا الدَّيْنَ قَالَ أَبُو عِيسَى وَفِي الْبَاب عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ وَجَابِرٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي قَتَادَةَ وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ هَذَا الشَّيْخِ قَالَ وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَعِيلَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْهُ و قَالَ أَرَى أَنَّهُ أَرَادَ حَدِيثَ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَسُرُّهُ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى الدُّنْيَا إِلَّا الشَّهِيدُ
کتاب: جہاد کےفضائل کےبیان میں
شہداء کے اجروثواب کا بیان
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' اللہ کی راہ میں شہادت (شہید کے لیے) ہر گناہ کا کفارہ بن جاتی ہے، جبریل نے کہا:' سوائے قرض کے' ، نبی اکرمﷺ نے بھی کہا: 'سوائے قرض کے' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ہم اس حدیث کو ابی بکر کی روایت سے صرف اسی شیخ (یعنی یحییٰ بن طلحہ) کے واسطے سے جانتے ہیں، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا: میراخیال ہے یحییٰ بن طلحہ نے حمیدکی حدیث بیان کرناچاہی جس کو انہوں نے انس سے ، انس رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:شہیدکے علاوہ کوئی ایسا جنتی نہیں ہے جو دنیا کی طرف لوٹناچاہے، ۳- اس باب میں کعب بن عجرہ ، جابر، ابوہریرہ اورابوقتادہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تشریح :
۱؎ : کیوں کہ یہ حقوق العباد میں سے ہے۔
نوٹ:(عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث (عند مسلم) سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی صحیح ہے ، ورنہ اس کی سند میں کلام ہے جس کی صراحت مؤلف نے کردی ہے)
۱؎ : کیوں کہ یہ حقوق العباد میں سے ہے۔
نوٹ:(عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث (عند مسلم) سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی صحیح ہے ، ورنہ اس کی سند میں کلام ہے جس کی صراحت مؤلف نے کردی ہے)