جامع الترمذي - حدیث 164

أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي وَقْتِ الْمَغْرِبِ​ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْمَغْرِبَ إِذَا غَرَبَتْ الشَّمْسُ وَتَوَارَتْ بِالْحِجَابِ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَالصُّنَابِحِيِّ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَأَنَسٍ وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَأُمِّ حَبِيبَةَ وَعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَحَدِيثُ الْعَبَّاسِ قَدْ رُوِيَ مَوْقُوفًا عَنْهُ وَهُوَ أَصَحُّ وَالصُّنَابِحِيُّ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَاحِبُ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ التَّابِعِينَ اخْتَارُوا تَعْجِيلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ وَكَرِهُوا تَأْخِيرَهَا حَتَّى قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَيْسَ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ إِلَّا وَقْتٌ وَاحِدٌ وَذَهَبُوا إِلَى حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ صَلَّى بِهِ جِبْرِيلُ وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 164

کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل مغرب کے وقت کا بیان​ سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج ڈوب جاتا اور پردے میں چھپ جاتا ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سلمہ بن الاکوع والی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں جابر ، صنابحی، زید بن خالد ، انس ، رافع بن خدیج ، ابوایوب ، ام حبیبہ، عباس بن عبدالمطلب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳-عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ان سے موقوفاً روایت کی گئی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے،۴- اور صنابحی نے نبی اکرمﷺ سے نہیں سناہے، وہ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور کے ہیں، ۵- اور یہی قول صحابہ کرام اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا ہے، ان لوگوں نے صلاۃِ مغرب جلدی پڑھنے کو پسند کیا ہے اور اسے مؤخر کرنے کو مکروہ سمجھاہے، یہاں تک کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مغرب کاایک ہی وقت ہے ۲؎ ، یہ تمام حضرات نبی اکرمﷺ کی اس حدیث کی طرف گئے ہیں جس میں ہے کہ جبرئیل نے آپ کو صلاۃ پڑھائی اوریہی ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔
تشریح : ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مغرب کاوقت سورج ڈوبنے کے بعدشروع ہوتا ہے اور اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مغرب میں تاخیرنہیں کرنی چاہئے بلکہ ا سے اوّل وقت ہی میں اداکرناچاہئے۔ ۲؎ : سلف کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ مغرب کا وقت ممتد(پھیلا ہوا) ہے یا غیرممتد،جمہورکے نزدیک سورج ڈوبنے سے لے کرشفق ڈوبنے تک پھیلا ہواہے، اور شافعی اورابن مبارک کی رائے ہے کہ مغرب کا صرف ایک ہی وقت ہے اور وہ اوّل وقت ہے، ان لوگوں کی دلیل جبریل علیہ السلام والی روایت ہے جس میں ہے کہ دونوں دنوں میں آپ نے مغرب سورج ڈوبنے کے فوراً بعدپڑھائی اورجمہورکی دلیل صحیح مسلم میں موجود ابوموسیٰ کی روایت ہے، اس میں ہے'ثم أخر المغرب حتى كان عند سقوط الشفق' جمہورکی رائے ہی زیادہ صحیح ہے، جمہورنے جبرئیل والی روایت کا جواب تین طریقے سے دیا ہے : ۱- اس میں صرف افضل وقت کے بیان پر اکتفاکیا گیا ہے، وقت جواز کو بیان نہیں گیا ،۲- جبرئیل کی روایت متقدم ہے مکّی دورکی اورمغرب کا وقت شفق ڈوبنے تک ممتدہونے کی روایت متاخرہے مدنی دورکی ، ۳- یہ روایت جبرئیل والی روایت سے سندکے اعتبارسے زیادہ صحیح ہے ۔ ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مغرب کاوقت سورج ڈوبنے کے بعدشروع ہوتا ہے اور اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مغرب میں تاخیرنہیں کرنی چاہئے بلکہ ا سے اوّل وقت ہی میں اداکرناچاہئے۔ ۲؎ : سلف کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ مغرب کا وقت ممتد(پھیلا ہوا) ہے یا غیرممتد،جمہورکے نزدیک سورج ڈوبنے سے لے کرشفق ڈوبنے تک پھیلا ہواہے، اور شافعی اورابن مبارک کی رائے ہے کہ مغرب کا صرف ایک ہی وقت ہے اور وہ اوّل وقت ہے، ان لوگوں کی دلیل جبریل علیہ السلام والی روایت ہے جس میں ہے کہ دونوں دنوں میں آپ نے مغرب سورج ڈوبنے کے فوراً بعدپڑھائی اورجمہورکی دلیل صحیح مسلم میں موجود ابوموسیٰ کی روایت ہے، اس میں ہے'ثم أخر المغرب حتى كان عند سقوط الشفق' جمہورکی رائے ہی زیادہ صحیح ہے، جمہورنے جبرئیل والی روایت کا جواب تین طریقے سے دیا ہے : ۱- اس میں صرف افضل وقت کے بیان پر اکتفاکیا گیا ہے، وقت جواز کو بیان نہیں گیا ،۲- جبرئیل کی روایت متقدم ہے مکّی دورکی اورمغرب کا وقت شفق ڈوبنے تک ممتدہونے کی روایت متاخرہے مدنی دورکی ، ۳- یہ روایت جبرئیل والی روایت سے سندکے اعتبارسے زیادہ صحیح ہے ۔