جامع الترمذي - حدیث 1617

أَبْوَابُ السِّيَرِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي وَصِيَّتِهِ ﷺ فِي الْقِتَالِ​ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ أَمِيرًا عَلَى جَيْشٍ أَوْصَاهُ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ بِتَقْوَى اللَّهِ وَمَنْ مَعَهُ مِنْ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا وَقَالَ اغْزُوا بِسْمِ اللَّهِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ وَلَا تَغُلُّوا وَلَا تَغْدِرُوا وَلَا تُمَثِّلُوا وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا فَإِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنْ الْمُشْرِكِينَ فَادْعُهُمْ إِلَى إِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ أَوْ خِلَالٍ أَيَّتُهَا أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ وَادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ وَالتَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ فَإِنَّ لَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ وَإِنْ أَبَوْا أَنْ يَتَحَوَّلُوا فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُوا كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ يَجْرِي عَلَيْهِمْ مَا يَجْرِي عَلَى الْأَعْرَابِ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْغَنِيمَةِ وَالْفَيْءِ شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا فَإِنْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ عَلَيْهِمْ وَقَاتِلْهُمْ وَإِذَا حَاصَرْتَ حِصْنًا فَأَرَادُوكَ أَنْ تَجْعَلَ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ نَبِيِّهِ فَلَا تَجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَلَا ذِمَّةَ نَبِيِّهِ وَاجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّتَكَ وَذِمَمَ أَصْحَابِكَ لِأَنَّكُمْ إِنْ تَخْفِرُوا ذِمَّتَكُمْ وَذِمَمَ أَصْحَابِكُمْ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَخْفِرُوا ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ رَسُولِهِ وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تُنْزِلَهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ فَلَا تُنْزِلُوهُمْ وَلَكِنْ أَنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِكَ فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَتُصِيبُ حُكْمَ اللَّهِ فِيهِمْ أَمْ لَا أَوْ نَحْوَ هَذَا قَالَ أَبُو عِيسَى وَفِي الْبَاب عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ وَحَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ وَزَادَ فِيهِ فَإِنْ أَبَوْا فَخُذْ مِنْهُمْ الْجِزْيَةَ فَإِنْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ عَلَيْهِمْ قَالَ أَبُو عِيسَى هَكَذَا رَوَاهُ وَكِيعٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُفْيَانَ وَرَوَى غَيْرُ مُحَمَّدِ بْنِ بَشَّارٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ وَذَكَرَ فِيهِ أَمْرَ الْجِزْيَةِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1617

کتاب: سیر کے بیان میں جہادکے سلسلے میں نبی اکرمﷺ کی وصیت کا بیان​ بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :رسول اللہ ﷺ جب کسی لشکر پر امیرمقرر کرتے تو اسے خاص اپنے نفس کے بارے میں سے اللہ سے ڈرنے اورجومسلمان ان کے ساتھ ہوتے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت کرتے تھے، اس کے بعدآپ فرماتے: اللہ کے نام سے اورا س کے راستے میں جہادکرو، ان لوگوں سے جو اللہ کا انکار کرنے والے ہیں، مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، عہد نہ توڑو، مثلہ نہ کرو، بچوں کو قتل نہ کرو اور جب تم اپنے مشرک دشمنوں کے سامنے جاؤ تو ان کو تین میں سے کسی ایک بات کی دعوت دو ان میں سے جسے وہ مان لیں قبول کرلو اوران کے ساتھ لڑائی سے بازرہو: ان کو اسلام لانے اوراپنے وطن سے مہاجرین کے وطن کی طرف ہجرت کرنے کی دعوت دو، اوران کو بتادوکہ اگر انہوں نے ایسا کرلیاتو ان کے لیے وہی حقوق ہیں جو مہاجرین کے لیے ہیں اور ان کے اوپر وہی ذمہ داریاں ہیں جو مہاجرین پر ہیں، اوراگروہ ہجرت کرنے سے انکارکریں تو ان کو بتادو کہ وہ بدوی مسلمانوں کی طرح ہوں گے ، ان کے اوپروہی احکام جاری ہوں گے جو بدوی مسلمانوں پر جاری ہوتے ہیں: مال غنیمت اورفئی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے مگر یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد کریں ، پھر اگروہ ایساکرنے سے انکار کریں تو ان پر فتح یاب ہو نے کے لیے اللہ سے مددطلب کرو اور ان سے جہاد شروع کردو، جب تم کسی قلعہ کا محاصرہ کرو اور وہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ اوراس کے نبی کی پناہ دوتو تم ان کو اللہ اور اس کے نبی کی پناہ نہ دو، بلکہ تم اپنی اور اپنے ساتھیوں کی پناہ دو، (اس کے خلاف نہ کرنا) اس لیے کہ اگر تم اپنااوراپنے ساتھیوں کاعہدتوڑتے ہو تو یہ زیادہ بہترہے اس سے کہ تم اللہ اوراس کے رسول کا عہدتوڑو ، اورجب تم کسی قلعے والے کا محاصرہ کرو اوروہ چاہیں کہ تم ان کو اللہ کے فیصلہ پر اتارو تو ان کو اللہ کے فیصلہ پرمت اتارو بلکہ اپنے فیصلہ پر اتارو، اس لیے کہ تم نہیں جانتے کہ ان کے سلسلے میں اللہ کے فیصلہ پر پہنچ سگو گے یا نہیں'، آپ نے اسی طرح کچھ اور بھی فرمایا ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے۔ اس سند سے بھی بریدہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ اس میں یہ اضافہ ہے : 'فَإِنْ أَبَوْا فَخُذْ مِنْہُمْ الْجِزْیَۃَ فَإِنْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللہِ عَلَیْہِمْ' یعنی اگروہ اسلام لانے سے انکارکریں تو ان سے جزیہ لو، پھر اگر (جزیہ دینے سے بھی) انکار کریں تو ان پرفتح یاب ہونے کے لیے اللہ سے مددطلب کرو'۔ وکیع اورکئی لوگوں نے سفیان سے اسی طرح روایت کی ہے ، محمدبن بشارکے علاوہ دوسرے لوگوں نے عبدالرحمن بن مہدی سے روایت کی ہے اوراس میں جزیہ کا حکم بیان کیا ہے ۔
تشریح : ۱؎ : یعنی اگر کفار ومشرکین غیر مشروط طور پر بغیر کسی معین شرط اور پختہ عہد کے اپنے آپ کو امیر لشکر کے حوالہ کرنے پر تیار ہوں تو بہتر ، ورنہ صرف اللہ کے حکم کے مطابق امیر سے معاملہ کرناچاہیں تو امیر کو ایسا نہیں کرنا ہے، کیوں کہ اسے نہیں معلوم کہ اللہ نے ان کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے، یہ حدیث اصول جہاد کے بڑے معتبر اصولوں پر مشتمل ہے جو معمولی سے غور وتامل سے واضح ہوجاتے ہیں۔ حدیث میں موجود نصوص کو مطلق طورپر اپنانا بحث ومباحثہ میں جانے سے کہیں بہتر ہے۔ ۱؎ : یعنی اگر کفار ومشرکین غیر مشروط طور پر بغیر کسی معین شرط اور پختہ عہد کے اپنے آپ کو امیر لشکر کے حوالہ کرنے پر تیار ہوں تو بہتر ، ورنہ صرف اللہ کے حکم کے مطابق امیر سے معاملہ کرناچاہیں تو امیر کو ایسا نہیں کرنا ہے، کیوں کہ اسے نہیں معلوم کہ اللہ نے ان کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے، یہ حدیث اصول جہاد کے بڑے معتبر اصولوں پر مشتمل ہے جو معمولی سے غور وتامل سے واضح ہوجاتے ہیں۔ حدیث میں موجود نصوص کو مطلق طورپر اپنانا بحث ومباحثہ میں جانے سے کہیں بہتر ہے۔