جامع الترمذي - حدیث 1589

أَبْوَابُ السِّيَرِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا يَحِلُّ مِنْ أَمْوَالِ أَهْلِ الذِّمَّةِ​ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَمُرُّ بِقَوْمٍ فَلَا هُمْ يُضَيِّفُونَا وَلَا هُمْ يُؤَدُّونَ مَا لَنَا عَلَيْهِمْ مِنْ الْحَقِّ وَلَا نَحْنُ نَأْخُذُ مِنْهُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ أَبَوْا إِلَّا أَنْ تَأْخُذُوا كَرْهًا فَخُذُوا قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رَوَاهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ أَيْضًا وَإِنَّمَا مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُمْ كَانُوا يَخْرُجُونَ فِي الْغَزْوِ فَيَمُرُّونَ بِقَوْمٍ وَلَا يَجِدُونَ مِنْ الطَّعَامِ مَا يَشْتَرُونَ بِالثَّمَنِ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ أَبَوْا أَنْ يَبِيعُوا إِلَّا أَنْ تَأْخُذُوا كَرْهًا فَخُذُوا هَكَذَا رُوِيَ فِي بَعْضِ الْحَدِيثِ مُفَسَّرًا وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ بِنَحْوِ هَذَا

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1589

کتاب: سیر کے بیان میں ذمی کے مال سے کتنا لینا جائزہے؟​ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ! ہم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرتے ہیں جونہ ہماری مہمانی کرتے ہیں، نہ ان پر جوہمارا حق ہے اسے اداکرتے ہیں، اور ہم ان سے کچھ نہیں لیتے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'اگروہ نہ دیں سوائے اس کے کہ تم زبردستی ان سے لو، تو زبردستی لے لو'۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اسے لیث بن سعدنے بھی یزیدبن ابی حبیب سے روایت کیا ہے (جیسا کہ بخاری کی سند میں ہے)، ۳- اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ صحابہ جہادکے لیے نکلتے تھے تووہ ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرتے ، جہاں کھانانہیں پاتے تھے، کہ قیمت سے خریدیں، نبی اکرمﷺنے فرمایا:' اگروہ (کھانا)فروخت کرنے سے انکار کریں سوائے اس کے کہ تم زبردستی لوتوزبردستی لے لو،۴- ایک حدیث میں اسی طرح کی وضاحت آئی ہے، عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بھی اسی طرح کا حکم دیاکرتے تھے ۱؎ ۔
تشریح : ۱؎ : امام احمد، شوکانی اور صاحب تحفہ الاحوذی کے مطابق یہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے، اس کی کوئی تاویل بلا دلیل ہے، جیسے : یہ زمن نبوت کے ساتھ خاص تھا، یا یہ کہ یہ ان اہل ذمہ کے ساتھ خاص تھا جن سے مسلمان لشکریوں کی ضیافت کرنے کی شرط لی گئی تھی، وغیرہ وغیرہ۔ ۱؎ : امام احمد، شوکانی اور صاحب تحفہ الاحوذی کے مطابق یہ حدیث اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے، اس کی کوئی تاویل بلا دلیل ہے، جیسے : یہ زمن نبوت کے ساتھ خاص تھا، یا یہ کہ یہ ان اہل ذمہ کے ساتھ خاص تھا جن سے مسلمان لشکریوں کی ضیافت کرنے کی شرط لی گئی تھی، وغیرہ وغیرہ۔