جامع الترمذي - حدیث 157

أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي تَأْخِيرِ الظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ​ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنْ الصَّلَاةِ فَإِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَأَبِي ذَرٍّ وَابْنِ عُمَرَ وَالْمُغِيرَةِ وَالْقَاسِمِ بْنِ صَفْوَانَ عَنْ أَبِيهِ وَأَبِي مُوسَى وَابْنِ عَبَّاسٍ وَأَنَسٍ قَالَ وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا وَلَا يَصِحُّ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ تَأْخِيرَ صَلَاةِ الظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالَ الشَّافِعِيُّ إِنَّمَا الْإِبْرَادُ بِصَلَاةِ الظُّهْرِ إِذَا كَانَ مَسْجِدًا يَنْتَابُ أَهْلُهُ مِنْ الْبُعْدِ فَأَمَّا الْمُصَلِّي وَحْدَهُ وَالَّذِي يُصَلِّي فِي مَسْجِدِ قَوْمِهِ فَالَّذِي أُحِبُّ لَهُ أَنْ لَا يُؤَخِّرَ الصَّلَاةَ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ قَالَ أَبُو عِيسَى وَمَعْنَى مَنْ ذَهَبَ إِلَى تَأْخِيرِ الظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ هُوَ أَوْلَى وَأَشْبَهُ بِالِاتِّبَاعِ وَأَمَّا مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ الشَّافِعِيُّ أَنَّ الرُّخْصَةَ لِمَنْ يَنْتَابُ مِنْ الْبُعْدِ وَالْمَشَقَّةِ عَلَى النَّاسِ فَإِنَّ فِي حَدِيثِ أَبِي ذَرٍّ مَا يَدُلُّ عَلَى خِلَافِ مَا قَالَ الشَّافِعِيُّ قَالَ أَبُو ذَرٍّ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَذَّنَ بِلَالٌ بِصَلَاةِ الظُّهْرِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا بِلَالُ أَبْرِدْ ثُمَّ أَبْرِدْ فَلَوْ كَانَ الْأَمْرُ عَلَى مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ الشَّافِعِيُّ لَمْ يَكُنْ لِلْإِبْرَادِ فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ مَعْنًى لِاجْتِمَاعِهِمْ فِي السَّفَرِ وَكَانُوا لَا يَحْتَاجُونَ أَنْ يَنْتَابُوا مِنْ الْبُعْدِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 157

کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل سخت گرمی میں ظہر دیرسے پڑھنے کا بیان​ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:' جب گرمی سخت ہو تو صلاۃ ٹھنڈا ہونے پر پڑھو ۱؎ کیونکہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ سے ہے' ۲؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابوسعید، ابوذر ، ابن عمر، مغیرہ ،اور قاسم بن صفوان کے باپ ابوموسیٰ ، ابن عباس اور انس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اس سلسلے میں عمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے جسے انہوں نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، ۴- اہل علم میں کچھ لوگوں نے سخت گرمی میں ظہر تاخیر سے پڑھنے کو پسند کیاہے۔یہی ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں: ظہرٹھنڈا کرکے پڑھنے کی بات اس وقت کی ہے جب مسجدوالے دورسے آتے ہوں، رہا اکیلے صلاۃ پڑھنے والا اور وہ شخص جو اپنے ہی لوگوں کی مسجد میں صلاۃ پڑھتا ہوتو میں اس کے لیے یہی پسند کرتا ہوں کہ وہ سخت گرمی میں بھی صلاۃ کو دیرسے نہ پڑھے،۵- جولوگ گرمی کی شدت میں ظہرکودیرسے پڑھنے کی طرف گئے ہیں ان کامذہب زیادہ بہتر اور اتباع کے زیادہ لائق ہے، رہی وہ بات جس کی طرف شافعی کارجحان ہے کہ یہ رخصت اس کے لیے ہے جو دور سے آتا ہوتاکہ لوگوں کو پریشانی نہ ہوتو ابوذر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں کچھ ایسی باتیں ہیں جو اس چیز پردلالت کرتی ہیں جو امام شافعی کے قول کے خلاف ہیں۔ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ ایک سفرمیں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھے ، بلال نے صلاۃِ ظہر کے لیے اذان دی،تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:' بلال! ٹھنڈا ہوجانے دو، ٹھنڈا ہوجانے دو' (یہ حدیث آگے آرہی ہے)، اب اگر بات ایسی ہوتی جس کی طرف شافعی گئے ہیں، تو اس وقت ٹھنڈا کرنے کا کوئی مطلب نہ ہوتا، اس لیے کہ سفرمیں سب لوگ اکٹھا تھے، انہیں دور سے آنے کی ضرورت نہ تھی۔
تشریح : ۱؎ : یعنی کچھ انتظارکرلو ٹھنڈاہوجائے تب پڑھو،اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موسم گرما میں ظہر قدرے تاخیرکرکے پڑھنی چاہئے اس تاخیرکی حد کے بارے میں ابوداوداور نسائی میں ایک روایت آئی ہے کہ رسول اللہﷺ موسم گرما میں ظہر میں اتنی تاخیر کرتے کہ سایہ تین قدم سے لے کر پانچ قدم تک ہوجاتا،مگرعلامہ خطابی نے کہا ہے کہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ طول البلد اور عرض البلدکے اعتبارسے اس کا حساب بھی مختلف ہوگا،بہرحال موسم گرما میں صلاۃ ِ ظہرقدرے تاخیرسے پڑھنی مستحب ہے، یہی جمہورکی رائے ہے۔ ۲؎ : اسے حقیقی اورظاہری معنی پرمحمول کرنازیادہ صحیح ہے کیونکہ صحیحین کی روایت میں ہے کہ جہنم کی آگ نے رب عزوجل سے شکایت کی کہ میرے بعض اجزاء گرمی کی شدّت اور گھٹن سے بعض کو کھا گئے ہیں تورب عزوجل نے اسے دوسانس لینے کی اجازت دی ایک جاڑے میں اور ایک گرمی میں، جاڑے میں سانس اندر کی طرف لیتی ہے اورگرمی میں باہرنکالتی ہے ۔ ۱؎ : یعنی کچھ انتظارکرلو ٹھنڈاہوجائے تب پڑھو،اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موسم گرما میں ظہر قدرے تاخیرکرکے پڑھنی چاہئے اس تاخیرکی حد کے بارے میں ابوداوداور نسائی میں ایک روایت آئی ہے کہ رسول اللہﷺ موسم گرما میں ظہر میں اتنی تاخیر کرتے کہ سایہ تین قدم سے لے کر پانچ قدم تک ہوجاتا،مگرعلامہ خطابی نے کہا ہے کہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ طول البلد اور عرض البلدکے اعتبارسے اس کا حساب بھی مختلف ہوگا،بہرحال موسم گرما میں صلاۃ ِ ظہرقدرے تاخیرسے پڑھنی مستحب ہے، یہی جمہورکی رائے ہے۔ ۲؎ : اسے حقیقی اورظاہری معنی پرمحمول کرنازیادہ صحیح ہے کیونکہ صحیحین کی روایت میں ہے کہ جہنم کی آگ نے رب عزوجل سے شکایت کی کہ میرے بعض اجزاء گرمی کی شدّت اور گھٹن سے بعض کو کھا گئے ہیں تورب عزوجل نے اسے دوسانس لینے کی اجازت دی ایک جاڑے میں اور ایک گرمی میں، جاڑے میں سانس اندر کی طرف لیتی ہے اورگرمی میں باہرنکالتی ہے ۔