أَبْوَابُ السِّيَرِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي أَهْلِ الذِّمَّةِ يَغْزُونَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ هَلْ يُسْهَمُ لَهُمْ صحيح حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ الْفُضَيْلِ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نِيَارٍ الْأَسْلَمِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى بَدْرٍ حَتَّى إِذَا كَانَ بِحَرَّةِ الْوَبَرَةِ لَحِقَهُ رَجُلٌ مِنْ الْمُشْرِكِينَ يَذْكُرُ مِنْهُ جُرْأَةً وَنَجْدَةً فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَسْتَ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ قَالَ لَا قَالَ ارْجِعْ فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ وَفِي الْحَدِيثِ كَلَامٌ أَكْثَرُ مِنْ هَذَا هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا لَا يُسْهَمُ لِأَهْلِ الذِّمَّةِ وَإِنْ قَاتَلُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ الْعَدُوَّ وَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يُسْهَمَ لَهُمْ إِذَا شَهِدُوا الْقِتَالَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ
کتاب: سیر کے بیان میں
مالِ غنیمت میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک ذمیوں کے حصہ کا بیان
"ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ بدرکے لیے نکلے، جب آپ حرۃ الوبرہ ۱؎ پہنچے تو آپ کے ساتھ ایک مشرک ہو لیا جس کی جرأت ودلیری مشہورتھی نبی اکرمﷺنے اس سے پوچھا :تم اللہ اوراس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو؟ اس نے جواب دیا : نہیں، آپ نے فرمایا:' لوٹ جاؤ، میں کسی مشرک سے ہرگز مددنہیں لوں گا ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حدیث میں اس سے بھی زیادہ کچھ تفصیل ہے، ۲- یہ حدیث حسن غریب ہے ، ۳- بعض اہل علم کااسی پرعمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ ذمی کو مال غنیمت سے حصہ نہیں ملے گا اگرچہ وہ مسلمانوں کے ہمراہ دشمن سے جنگ کریں، ۴- کچھ اہل علم کاخیال ہے کہ جب ذمی مسلمانوں کے ہمراہ جنگ میں شریک ہوں توان کوحصہ دیاجائے گا"
تشریح :
" ۱؎ : مدینہ سے چار میل کی دوری پر ہے۔
۲؎ : بعض روایتوں میں ہے کہ اس کی بہادری وجرأتمندی اس قدر مشہور تھی کہ صحابہ اسے دیکھ کر خوش ہوگئے، پھر اس نے خود ہی صراحت کردی کہ میں صرف اور صرف مال غنیمت میں حصہ لینے کی خواہش میں شریک ہورہاہوں ، پھر اس نے جب ایمان نہ لانے کی صراحت کردی تو آپ نے اس کا تعاون لینے سے انکار کردیا۔ پھر بعد میں اس نے ایمان کا اقرار کیا اور آپ کی اجازت سے شریک جنگ ہوا، یہاں پھر یہ سوال پیداہوتا ہے کہ کافر سے مدد لینا جائز ہے یا نہیں ۔ ایک جماعت کایہ خیال ہے کہ مدد لینا جائز ہے اور بعض کی رائے ہے کہ بوقت ضرورت مدد لی جاسکتی ہے جیساکہ آپ نے جنگ حنین کے موقع پر صفوان بن امیہ وغیرہ سے اسلحہ کی امداد لی تھی اسی طرح بنو قینقاع کے یہود یوں سے بھی مددلی تھی، بہر حال اسلحہ اور افرادی امداد دونوں کی شدید ضرورت وحاجت کے موقع پر لینے کی گنجائش ہے۔"
" ۱؎ : مدینہ سے چار میل کی دوری پر ہے۔
۲؎ : بعض روایتوں میں ہے کہ اس کی بہادری وجرأتمندی اس قدر مشہور تھی کہ صحابہ اسے دیکھ کر خوش ہوگئے، پھر اس نے خود ہی صراحت کردی کہ میں صرف اور صرف مال غنیمت میں حصہ لینے کی خواہش میں شریک ہورہاہوں ، پھر اس نے جب ایمان نہ لانے کی صراحت کردی تو آپ نے اس کا تعاون لینے سے انکار کردیا۔ پھر بعد میں اس نے ایمان کا اقرار کیا اور آپ کی اجازت سے شریک جنگ ہوا، یہاں پھر یہ سوال پیداہوتا ہے کہ کافر سے مدد لینا جائز ہے یا نہیں ۔ ایک جماعت کایہ خیال ہے کہ مدد لینا جائز ہے اور بعض کی رائے ہے کہ بوقت ضرورت مدد لی جاسکتی ہے جیساکہ آپ نے جنگ حنین کے موقع پر صفوان بن امیہ وغیرہ سے اسلحہ کی امداد لی تھی اسی طرح بنو قینقاع کے یہود یوں سے بھی مددلی تھی، بہر حال اسلحہ اور افرادی امداد دونوں کی شدید ضرورت وحاجت کے موقع پر لینے کی گنجائش ہے۔"