جامع الترمذي - حدیث 1548

أَبْوَابُ السِّيَرِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الدَّعْوَةِ قَبْلَ الْقِتَالِ​ ضعيف حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ أَنَّ جَيْشًا مِنْ جُيُوشِ الْمُسْلِمِينَ كَانَ أَمِيرَهُمْ سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ حَاصَرُوا قَصْرًا مِنْ قُصُورِ فَارِسَ فَقَالُوا يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ أَلَا نَنْهَدُ إِلَيْهِمْ قَالَ دَعُونِي أَدْعُهُمْ كَمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُوهُمْ فَأَتَاهُمْ سَلْمَانُ فَقَالَ لَهُمْ إِنَّمَا أَنَا رَجُلٌ مِنْكُمْ فَارِسِيٌّ تَرَوْنَ الْعَرَبَ يُطِيعُونَنِي فَإِنْ أَسْلَمْتُمْ فَلَكُمْ مِثْلُ الَّذِي لَنَا وَعَلَيْكُمْ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْنَا وَإِنْ أَبَيْتُمْ إِلَّا دِينَكُمْ تَرَكْنَاكُمْ عَلَيْهِ وَأَعْطُونَا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَأَنْتُمْ صَاغِرُونَ قَالَ وَرَطَنَ إِلَيْهِمْ بِالْفَارِسِيَّةِ وَأَنْتُمْ غَيْرُ مَحْمُودِينَ وَإِنْ أَبَيْتُمْ نَابَذْنَاكُمْ عَلَى سَوَاءٍ قَالُوا مَا نَحْنُ بِالَّذِي نُعْطِي الْجِزْيَةَ وَلَكِنَّا نُقَاتِلُكُمْ فَقَالُوا يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ أَلَا نَنْهَدُ إِلَيْهِمْ قَالَ لَا فَدَعَاهُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَى مِثْلِ هَذَا ثُمَّ قَالَ انْهَدُوا إِلَيْهِمْ قَالَ فَنَهَدْنَا إِلَيْهِمْ فَفَتَحْنَا ذَلِكَ الْقَصْرَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ بُرَيْدَةَ وَالنُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ وَابْنِ عُمَرَ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَحَدِيثُ سَلْمَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ و سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ أَبُو الْبَخْتَرِيِّ لَمْ يُدْرِكْ سَلْمَانَ لِأَنَّهُ لَمْ يُدْرِكْ عَلِيًّا وَسَلْمَانُ مَاتَ قَبْلَ عَلِيٍّ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا وَرَأَوْا أَنْ يُدْعَوْا قَبْلَ الْقِتَالِ وَهُوَ قَوْلُ إِسْحَقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ قَالَ إِنْ تُقُدِّمَ إِلَيْهِمْ فِي الدَّعْوَةِ فَحَسَنٌ يَكُونُ ذَلِكَ أَهْيَبَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا دَعْوَةَ الْيَوْمَ و قَالَ أَحْمَدُ لَا أَعْرِفُ الْيَوْمَ أَحَدًا يُدْعَى و قَالَ الشَّافِعِيُّ لَا يُقَاتَلُ الْعَدُوُّ حَتَّى يُدْعَوْا إِلَّا أَنْ يَعْجَلُوا عَنْ ذَلِكَ فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ فَقَدْ بَلَغَتْهُمْ الدَّعْوَةُ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1548

کتاب: سیر کے بیان میں جنگ سے پہلے اسلام کی دعوت دینے کا بیان​ ابوالبختری سعید بن فیروز سے روایت ہے کہ مسلمانوں کے ایک لشکرنے جس کے امیرسلمان فارسی تھے،فارس کے ایک قلعہ کامحاصرہ کیا، لوگوں نے کہا: ابوعبداللہ ! کیاہم ان پرحملہ نہ کردیں ؟ ،انہوں نے کہا: مجھے چھوڑدومیں ان کافروں کو اسلام کی دعوت اسی طرح دوں جیساکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو انہیں دعوت دیتے ہوئے سنا ہے ۱ ؎ ، چنانچہ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے، اور کافروں سے کہا: میں تمہاری ہی قوم فارس کا رہنے والا ایک آدمی ہوں، تم دیکھ رہے ہوعرب میری اطاعت کرتے ہیں، اگرتم اسلام قبول کروگے توتمہارے لیے وہی حقوق ہوں گے جوہمارے لیے ہیں، اورتمہارے اوپروہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی جوہمارے اوپرہیں، اوراگرتم اپنے دین ہی پر قائم رہناچاہتے ہوتو ہم اسی پر تم کوچھوڑدیں گے، اور تم ذلیل وخوار ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ اداکرو ۲؎ ، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اس بات کو فارسی زبان میں بھی بیان کیا، اوریہ بھی کہا: تم قابلِ تعریف لوگ نہیں ہو، اوراگرتم نے انکار کیا توہم تم سے(حق پر) جنگ کریں گے، ان لوگوں نے جواب دیا: ہم وہ نہیں ہیں کہ جزیہ دیں ، بلکہ تم سے جنگ کریں گے، مسلمانوں نے کہا: ابوعبداللہ ! کیا ہم ان پرحملہ نہ کردیں؟ انہوں نے کہا: نہیں، پھر انہوں نے تین دن تک اسی طرح ان کو اسلام کی دعوت دی، پھر مسلمانوں سے کہا: ان پر حملہ کرو، ہم لوگوں نے ان پر حملہ کیااوراس قلعہ کوفتح کرلیا ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن ہے، ہم اس کو صرف عطاء بن سائب ہی کی روایت سے جانتے ہیں،۲- میں نے محمدبن اسماعیل (امام بخاری) کو کہتے ہوئے سنا: ابوالبختری نے سلمان کونہیں پایاہے ، اس لیے کہ انہوں نے علی کو نہیں پایا ہے، اورسلمان کی وفات علی سے پہلے ہوئی ہے ،۲- اس باب میں بریدہ ، نعمان بن مقرن، ابن عمراورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- بعض اہل علم صحابہ اوردوسرے لوگوں کی یہی رائے ہے کہ قتال سے پہلے کافروں کو دعوت دی جائے گی، اسحاق بن ابراہیم بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے کہ اگران کوپہلے اسلام کی دعوت دے دی جائے توبہترہے ، یہ ان کے لیے خوف کا باعث ہوگا،۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس دور میں دعوت کی ضرورت نہیں ہے، امام احمدکہتے ہیں: میں اس زمانے میں کسی کودعوت دئے جانے کے لائق نہیں سمجھتا، ۵- امام شافعی کہتے ہیں: دعوت سے پہلے دشمنوں سے جنگ نہ شروع کی جائے، ہاں اگر کفار خود جنگ میں پہل کربیٹھیں تو اس صورت میں اگر دعوت نہ دی گئی تو کوئی حرج نہیں کیوں کہ اسلام کی دعوت ان تک پہنچ چکی ہے۔
تشریح : ۱؎ : یعنی ان کافروں کو پہلے اسلام کی دعوت دی جائے اگر انہیں یہ منظور نہ ہو تو ان سے جزیہ دینے کو کہاجائے اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر حملہ کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ ۲؎ : جزیہ ایک متعین رقم ہے جو سالانہ ایسے غیر مسلموں سے لی جاتی ہے جو کسی اسلامی مملکت میں رہائش پذیر ہوں، اس کے بدلے میں ان کی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی مملکت کی ہوتی ہے۔ نوٹ:(سند میں ابوالبختری کا لقاء 'سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے اس لیے سند میں انقطاع ہے ،نیز 'عطاء بن السائب ' اخیرعمر میں مختلط ہوگئے تھے ،لیکن قتال سے پہلے کفار کو مذکورہ تین باتوں کی پیشکش بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے دیکھئے : الإرواء رقم ۱۲۴۷) ۱؎ : یعنی ان کافروں کو پہلے اسلام کی دعوت دی جائے اگر انہیں یہ منظور نہ ہو تو ان سے جزیہ دینے کو کہاجائے اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر حملہ کے سوا کوئی چارہ کار نہیں۔ ۲؎ : جزیہ ایک متعین رقم ہے جو سالانہ ایسے غیر مسلموں سے لی جاتی ہے جو کسی اسلامی مملکت میں رہائش پذیر ہوں، اس کے بدلے میں ان کی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی مملکت کی ہوتی ہے۔ نوٹ:(سند میں ابوالبختری کا لقاء 'سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے اس لیے سند میں انقطاع ہے ،نیز 'عطاء بن السائب ' اخیرعمر میں مختلط ہوگئے تھے ،لیکن قتال سے پہلے کفار کو مذکورہ تین باتوں کی پیشکش بریدہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے دیکھئے : الإرواء رقم ۱۲۴۷)