جامع الترمذي - حدیث 154

أَبْوَابُ الصَّلاَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الإِسْفَارِ بِالْفَجْرِ​ صحيح حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ هُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ قَالَ وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ وَالثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ قَالَ وَرَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ أَيْضًا عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ وَجَابِرٍ وَبِلَالٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَأَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ الْإِسْفَارَ بِصَلَاةِ الْفَجْرِ وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ و قَالَ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ مَعْنَى الْإِسْفَارِ أَنْ يَضِحَ الْفَجْرُ فَلَا يُشَكَّ فِيهِ وَلَمْ يَرَوْا أَنَّ مَعْنَى الْإِسْفَارِ تَأْخِيرُ الصَّلَاةِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 154

کتاب: صلاۃ کے احکام ومسائل فجر اجالاہوجانے پر پڑھنے کا بیان​ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا:' فجر خوب اجالاکرکے پڑھو، کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے '۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- رافع بن خدیج کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبرزہ اسلمی، جابر اور بلال رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ کرام اور تابعین میں سے کئی اہل علم کی رائے صلاۃِفجراجالاہونے پرپڑھنے کی ہے۔ یہی سفیان ثوری بھی کہتے ہیں۔اور شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اسفار (اجالاہونے ) کا مطلب یہ ہے کہ فجر واضح ہوجائے اور اس کے طلوع میں کوئی شک نہ رہے، اسفار کا یہ مطلب نہیں کہ صلاۃ تاخیر(دیر) سے اداکی جائے ۱؎ ۔
تشریح : ۱؎ : نبی اکرمﷺ نیز صحابہ وتابعین وسلف صالحین کے تعامل کودیکھتے ہوئے اس حدیث کا یہی صحیح مطلب ہے۔باب ہذا اور گزشتہ باب کی احادیث میں علمائے حدیث نے جوبہترین تطبیق دی وہ یوں ہے کہ فجر کی صلاۃ منہ اندھیرے اوّل وقت میں شروع کرو ، اور تطویل قرأت کے ساتھ اُجالا کرلو، دونوں طرح کی احادیث پرعمل ہوجائے گا ۔( مزیدتفصیل کے لیے 'تحفۃ الأحوذی جلداوّل ص۱۴۵،طبع المکتبۃ الفاروقیۃ /ملتان ، پاکستان)۔ ۱؎ : نبی اکرمﷺ نیز صحابہ وتابعین وسلف صالحین کے تعامل کودیکھتے ہوئے اس حدیث کا یہی صحیح مطلب ہے۔باب ہذا اور گزشتہ باب کی احادیث میں علمائے حدیث نے جوبہترین تطبیق دی وہ یوں ہے کہ فجر کی صلاۃ منہ اندھیرے اوّل وقت میں شروع کرو ، اور تطویل قرأت کے ساتھ اُجالا کرلو، دونوں طرح کی احادیث پرعمل ہوجائے گا ۔( مزیدتفصیل کے لیے 'تحفۃ الأحوذی جلداوّل ص۱۴۵،طبع المکتبۃ الفاروقیۃ /ملتان ، پاکستان)۔