أَبْوَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ أَنْ لاَ نَذْرَ فِي مَعْصِيَةٍ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةٍ وَكَفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ لِأَنَّ الزُّهْرِيَّ لَمْ يَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْهُمْ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ وَابْنُ أَبِي عَتِيقٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ أَرْقَمَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مُحَمَّدٌ وَالْحَدِيثُ هُوَ هَذَا
کتاب: نذراورقسم (حلف) کے احکام ومسائل
معصیت کی نذر پوری نہیں کی جائے گی
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' معصیت کے کاموں میں نذر جائز نہیں ہے، اوراس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کاکفارہ ہے' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح نہیں ہے ، اس لیے کہ زہری نے اس کو ابو سلمہ سے نہیں سناہے ،۲- میں نے محمدبن اسماعیل بخاری کویہ کہتے ہوئے سناہے کہ اس حدیث کو کئی لوگوں نے روایت کیا ہے، انہیں میں موسیٰ بن عقبہ اورابن ابی عتیق ہیں،ان دونوں نے زہری سے بطریق: 'سلمان بن أرقم، عن یحیی بن أبی کثیر، عن أبی سلمۃ، عن عائشۃ، عن النبی ﷺ' روایت کی ہے، محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں : وہ حدیث یہی ہے، (اور آگے آرہی ہے)۳- اس باب میں ابن عمر، جابراورعمران بن حصین رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تشریح :
۱؎ : یعنی معصیت کی نذر پوری نہیں کی جائے گی، البتہ اس میں قسم کا کفارہ دینا ہوگا، نذر کی اصل انذار ہے جس کے معنی ڈرانے کے ہیں، امام راغب فرماتے ہیں کہ نذر کے معنی کسی حادثہ کی وجہ سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینے کے ہیں، قسم کے کفارے کاذکراس آیت کریمہ میں ہے:{لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ} (المائدة: 89) (اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغوقسم پرتم سے مواخذہ نہیں فرماتالیکن مواخذہ اس پر فرماتاہے کہ تم جن قسموں کو موکد کردو، اس کا کفارہ دس مساکین کو اوسط درجہ کا جو خود کھاتے ہیں وہ کھانا کھلا نا یا کپڑے پہنانا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے، پس جو شخص یہ نہ پائے تو اسے تین صیام رکھنے ہوں گے،یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھالو میں ہے، یہ حدیث معصیت کی نذر میں کفارہ کے واجب ہونے کا تقاضاکرتی ہے، امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کی یہی رائے ہے مگر جمہور علماء اس کے مخالف ہیں، ان کے نزدیک وجوب سے متعلق احادیث ضعیف ہیں، لیکن شارح ترمذی کہتے ہیں کہ باب کی اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں، ان سے حجت پکڑی جاسکتی ہے۔ (واللہ اعلم)
۱؎ : یعنی معصیت کی نذر پوری نہیں کی جائے گی، البتہ اس میں قسم کا کفارہ دینا ہوگا، نذر کی اصل انذار ہے جس کے معنی ڈرانے کے ہیں، امام راغب فرماتے ہیں کہ نذر کے معنی کسی حادثہ کی وجہ سے ایک غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینے کے ہیں، قسم کے کفارے کاذکراس آیت کریمہ میں ہے:{لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ} (المائدة: 89) (اللہ تعالیٰ تمہاری قسموں میں لغوقسم پرتم سے مواخذہ نہیں فرماتالیکن مواخذہ اس پر فرماتاہے کہ تم جن قسموں کو موکد کردو، اس کا کفارہ دس مساکین کو اوسط درجہ کا جو خود کھاتے ہیں وہ کھانا کھلا نا یا کپڑے پہنانا یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کرنا ہے، پس جو شخص یہ نہ پائے تو اسے تین صیام رکھنے ہوں گے،یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب کہ تم قسم کھالو میں ہے، یہ حدیث معصیت کی نذر میں کفارہ کے واجب ہونے کا تقاضاکرتی ہے، امام احمد اور اسحاق بن راہویہ کی یہی رائے ہے مگر جمہور علماء اس کے مخالف ہیں، ان کے نزدیک وجوب سے متعلق احادیث ضعیف ہیں، لیکن شارح ترمذی کہتے ہیں کہ باب کی اس حدیث کے بہت سے طرق ہیں، ان سے حجت پکڑی جاسکتی ہے۔ (واللہ اعلم)