جامع الترمذي - حدیث 1513

أَبْوَابُ الْأَضَاحِيِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الْعَقِيقَةِ​ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ أَنَّهُمْ دَخَلُوا عَلَى حَفْصَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ فَسَأَلُوهَا عَنْ الْعَقِيقَةِ فَأَخْبَرَتْهُمْ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُمْ عَنْ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ وَعَنْ الْجَارِيَةِ شَاةٌ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ وَأُمِّ كُرْزٍ وَبُرَيْدَةَ وَسَمُرَةَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو وَأَنَسٍ وَسَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَحَفْصَةُ هِيَ بِنْتُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1513

کتاب: قربانی کے احکام ومسائل عقیقہ کا بیان​ یوسف بن ماہک سے روایت ہے: لوگ حفصہ بنت عبدالرحمن کے پاس گئے اور ان سے عقیقہ کے بارے میں پوچھاتو انہوں نے بیان کیا کہ (اُن کی پھوپھی )ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کوبتایاکہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ لڑکے کی طرف سے دوبکریاں ایک جیسی اورلڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- حفصہ ، عبدالرحمن بن ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہیں،۳- اس باب میں علی ، ام کرز ، بریدہ ، سمرہ ،ابوہریرہ ، عبداللہ بن عمرو، انس، سلمان بن عامر اورابن عباس رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تشریح : ۱؎ : عقیقہ اس ذبیحہ کو کہتے ہیں جو نومولود کی طرف سے ذبح کیاجاتاہے، یہ بھی کہاگیا ہے کہ اصل میں عقیقہ ان بالوں کو کہتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں نومولود کے سر پر نکلتے ہیں، اس حالت میں نومولود کی طرف سے جوجانور ذبح کیاجاتاہے اسے عقیقہ کہتے ہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ عقیقہ ' عق' سے ماخوذ ہے جس کے معنی پھاڑنے اور کاٹنے کے ہیں، ذبح کی جانے والی بکری کو عقیقہ اس لیے کہاگیا کہ اس کے اعضاء کے ٹکڑے کئے جاتے ہیں اور پیٹ کو چیر پھاڑ دیاجاتاہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنی چاہیے، ' شاۃ ' کے لفظ سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ عقیقہ کے جانور میں قربانی کے جانور کی شرائط نہیں ہیں، لیکن بہتر ہے کہ قربانی کے جانور میں شارع نے جن نقائص اور عیوب سے بچنے اور پرہیز کرنے کی ہدایت دی ہے ان کا لحاظ رکھا جائے، عقیقہ کے جانور کادو دانتا ہونا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں، البتہ ' شاۃ ' کا تقاضا ہے کہ وہ بڑی عمر کا ہو۔ اور لفظ 'شأة' کا یہ بھی تقاضا ہے کہ گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز نہیں، اگر گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز ہوتے تو نبی اکرمﷺ صرف 'شأة' کا تذکرہ نہ فرماتے۔ ۱؎ : عقیقہ اس ذبیحہ کو کہتے ہیں جو نومولود کی طرف سے ذبح کیاجاتاہے، یہ بھی کہاگیا ہے کہ اصل میں عقیقہ ان بالوں کو کہتے ہیں جو ماں کے پیٹ میں نومولود کے سر پر نکلتے ہیں، اس حالت میں نومولود کی طرف سے جوجانور ذبح کیاجاتاہے اسے عقیقہ کہتے ہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ عقیقہ ' عق' سے ماخوذ ہے جس کے معنی پھاڑنے اور کاٹنے کے ہیں، ذبح کی جانے والی بکری کو عقیقہ اس لیے کہاگیا کہ اس کے اعضاء کے ٹکڑے کئے جاتے ہیں اور پیٹ کو چیر پھاڑ دیاجاتاہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنی چاہیے، ' شاۃ ' کے لفظ سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ عقیقہ کے جانور میں قربانی کے جانور کی شرائط نہیں ہیں، لیکن بہتر ہے کہ قربانی کے جانور میں شارع نے جن نقائص اور عیوب سے بچنے اور پرہیز کرنے کی ہدایت دی ہے ان کا لحاظ رکھا جائے، عقیقہ کے جانور کادو دانتا ہونا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں، البتہ ' شاۃ ' کا تقاضا ہے کہ وہ بڑی عمر کا ہو۔ اور لفظ 'شأة' کا یہ بھی تقاضا ہے کہ گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز نہیں، اگر گائے اور اونٹ عقیقہ میں جائز ہوتے تو نبی اکرمﷺ صرف 'شأة' کا تذکرہ نہ فرماتے۔