جامع الترمذي - حدیث 1508

أَبْوَابُ الْأَضَاحِيِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الذَّبْحِ بَعْدَ الصَّلاَةِ​ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمِ نَحْرٍ فَقَالَ لَا يَذْبَحَنَّ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُصَلِّيَ قَالَ فَقَامَ خَالِي فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا يَوْمٌ اللَّحْمُ فِيهِ مَكْرُوهٌ وَإِنِّي عَجَّلْتُ نُسُكِي لِأُطْعِمَ أَهْلِي وَأَهْلَ دَارِي أَوْ جِيرَانِي قَالَ فَأَعِدْ ذَبْحًا آخَرَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ عِنْدِي عَنَاقُ لَبَنٍ وَهِيَ خَيْرٌ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ أَفَأَذْبَحُهَا قَالَ نَعَمْ وَهِيَ خَيْرُ نَسِيكَتَيْكَ وَلَا تُجْزِئُ جَذَعَةٌ بَعْدَكَ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ وَجُنْدَبٍ وَأَنَسٍ وَعُوَيْمِرِ بْنِ أَشْقَرَ وَابْنِ عُمَرَ وَأَبِي زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ لَا يُضَحَّى بِالْمِصْرِ حَتَّى يُصَلِّيَ الْإِمَامُ وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ لِأَهْلِ الْقُرَى فِي الذَّبْحِ إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ أَبُو عِيسَى وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ لَا يُجْزِئَ الْجَذَعُ مِنْ الْمَعْزِ وَقَالُوا إِنَّمَا يُجْزِئُ الْجَذَعُ مِنْ الضَّأْنِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1508

کتاب: قربانی کے احکام ومسائل صلاۃعیدکے بعد قربانی کرنے کا بیان​ براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے قربانی کے دن ہمیں خطبہ دیا، آپ نے خطبہ کے دوران فرمایا:'جب تک صلاۃِ عیدادا نہ کرلے کوئی ہرگزقربانی نہ کرے '۔ براء کہتے ہیں: میرے ماموں کھڑے ہوئے ۱؎ ، اورانہوں نے عرض کیا: ا للہ کے رسول! یہ ایسادن ہے جس میں (زیادہ ہونے کی وجہ سے) گوشت قابل نفرت ہوجاتاہے، اس لیے میں نے اپنی قربانی جلدکردی تاکہ اپنے بال بچوں اور گھر والوں یاپڑوسیوں کو کھلاسکوں؟ آپ نے فرمایا:' پھر دوسری قربانی کرو'، انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس دودھ پیتی پٹھیاہے اورگوشت والی دوبکریوں سے بہترہے، کیا میں اس کوذبح کردوں؟آپ نے فرمایا: 'ہاں! وہ تمہاری دونوں قربانیوں سے بہترہے، لیکن تمہارے بعدکسی کے لیے جذعہ ( بچے) کی قربانی کافی نہ ہوگی' ۲؎ ۔ اس باب میں جابر، جندب ، انس، عویمربن اشقر، ابن عمراورابوزیدانصاری رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثراہل علم کااسی پرعمل ہے کہ جب تک امام نماز عیدنہ ادا کرلے شہرمیں قربانی نہ کی جائے،۳- اہل علم کی ایک جماعت نے جب فجرطلوع ہوجائے تو گاؤں والوں کے لیے قربانی کی رخصت دی ہے ، ابن مبارک کا بھی یہی قول ہے، ۴- اہل علم کا اجماع ہے کہ بکر ی کے جذع (چھ ماہ کے بچے) کی قربانی درست نہیں ہے، وہ کہتے ہیں البتہ بھیڑ کے جذع کی قربانی درست ہے ۳؎ ۔
تشریح : ۱؎ : ان کانام ابوبردہ بن نیار تھا۔۲؎ : یعنی یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے کیوں کہ تمہارے لیے اس وقت مجبوری ہے ورنہ قربانی میں مسنہ (دانتایعنی دودانت والا) ہی جائز ہے، بکری کا جذعہ وہ ہے جو سال پورا کرکے دوسرے سال میں قدم رکھ چکا ہواس کی بھی قربانی صرف ابوبردہ کے لیے جائز کی گئی تھی، اس حدیث سے معلوم ہواکہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت صلاۃ عید کے بعد ہے، اگر کسی نے صلاۃ عید کی ادائیگی سے پہلے ہی جانور ذبح کردیاتو اس کی قربانی نہیں ہوئی، اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے۔۳؎ : بھیڑ کے جذعہ (چھ ماہ) کی قربانی عام مسلمانوں کے لیے دانتا میسر نہ ہونے کی صورت میں جائز ہے، جب کہ بکری کے جذعہ (ایک سالہ) کی قربانی صرف ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے لیے جائز کی گئی تھی۔ ۱؎ : ان کانام ابوبردہ بن نیار تھا۔۲؎ : یعنی یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے کیوں کہ تمہارے لیے اس وقت مجبوری ہے ورنہ قربانی میں مسنہ (دانتایعنی دودانت والا) ہی جائز ہے، بکری کا جذعہ وہ ہے جو سال پورا کرکے دوسرے سال میں قدم رکھ چکا ہواس کی بھی قربانی صرف ابوبردہ کے لیے جائز کی گئی تھی، اس حدیث سے معلوم ہواکہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا صحیح وقت صلاۃ عید کے بعد ہے، اگر کسی نے صلاۃ عید کی ادائیگی سے پہلے ہی جانور ذبح کردیاتو اس کی قربانی نہیں ہوئی، اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے۔۳؎ : بھیڑ کے جذعہ (چھ ماہ) کی قربانی عام مسلمانوں کے لیے دانتا میسر نہ ہونے کی صورت میں جائز ہے، جب کہ بکری کے جذعہ (ایک سالہ) کی قربانی صرف ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے لیے جائز کی گئی تھی۔