جامع الترمذي - حدیث 1506

أَبْوَابُ الْأَضَاحِيِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الأُضْحِيَّةَ سُنَّةٌ​ ضعيف حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ عَنْ جَبَلَةَ بْنِ سُحَيْمٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنْ الْأُضْحِيَّةِ أَوَاجِبَةٌ هِيَ فَقَالَ ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ فَأَعَادَهَا عَلَيْهِ فَقَالَ أَتَعْقِلُ ضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُسْلِمُونَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْأُضْحِيَّةَ لَيْسَتْ بِوَاجِبَةٍ وَلَكِنَّهَا سُنَّةٌ مِنْ سُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُعْمَلَ بِهَا وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1506

کتاب: قربانی کے احکام ومسائل قربانی کے سنت ہونے کی دلیل​ جبلہ بن سحیم سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے قربانی کے بارے میں پوچھا: کیایہ واجب ہے ؟ توانہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اور مسلمانوں نے قربانی کی ہے،اس آدمی نے پھر اپنا سوال دہرایا، انہوں نے کہا: سمجھتے نہیں ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے اورمسلمانوں نے قربانی کی ہے ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ۲- اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے ، اور اس پر عمل کرنامستحب ہے، سفیان ثوری اورابن مبارک کایہی قول ہے ۔
تشریح : ۱؎ : بعض نے 'من كان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا'جس کے ہاں مالی استطاعت ہواور وہ قربانی نہ کرے تووہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیا ہے، مگر یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ یہ روایت مرفوع نہیں بلکہ موقوف یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے، نیز اس میں وجوب کی صراحت نہیں ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے حدیث میں ہے کہ جس نے لہسن کھایا ہو وہ ہماری مسجد میں نہ آئے، اسی لیے جمہور کے نزدیک یہ حکم صرف استحباب کی تاکید کے لیے ہے، اس کے علاوہ بھی جن دلائل سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیاجاتاہے وہ صریح نہیں ہیں، صحیح یہی ہے کہ قربانی سنت ہے۔ نوٹ:(سند میں 'حجاج بن ارطاۃ ' ضعیف اور مدلس راوی ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، واضح رہے کہ سنن ابن ماجہ کی سند بھی ضعیف ہے،اس لیے کہ اس میں اسماعیل بن عیاش ہیں جن کی روایت غیر شامی رواۃ سے ضعیف ہے ، اور اس حدیث کی ایک سند میں ان کے شیخ عبداللہ بن عون بصری ہیں، اور دوسری سند میں حجاج بن ارطاۃ کوفی ہیں) ۱؎ : بعض نے 'من كان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا'جس کے ہاں مالی استطاعت ہواور وہ قربانی نہ کرے تووہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیا ہے، مگر یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ یہ روایت مرفوع نہیں بلکہ موقوف یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے، نیز اس میں وجوب کی صراحت نہیں ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے حدیث میں ہے کہ جس نے لہسن کھایا ہو وہ ہماری مسجد میں نہ آئے، اسی لیے جمہور کے نزدیک یہ حکم صرف استحباب کی تاکید کے لیے ہے، اس کے علاوہ بھی جن دلائل سے قربانی کے وجوب پر استدلال کیاجاتاہے وہ صریح نہیں ہیں، صحیح یہی ہے کہ قربانی سنت ہے۔ نوٹ:(سند میں 'حجاج بن ارطاۃ ' ضعیف اور مدلس راوی ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، واضح رہے کہ سنن ابن ماجہ کی سند بھی ضعیف ہے،اس لیے کہ اس میں اسماعیل بن عیاش ہیں جن کی روایت غیر شامی رواۃ سے ضعیف ہے ، اور اس حدیث کی ایک سند میں ان کے شیخ عبداللہ بن عون بصری ہیں، اور دوسری سند میں حجاج بن ارطاۃ کوفی ہیں)