جامع الترمذي - حدیث 1492

أَبْوَابُ الصَّيْدِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الْبَعِيرِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ إِذَا نَدَّ فَصَارَ وَحْشِيًّا يُرْمَى بِسَهْمٍ أَمْ لاَ​ صحيح حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَنَدَّ بَعِيرٌ مِنْ إِبِلِ الْقَوْمِ وَلَمْ يَكُنْ مَعَهُمْ خَيْلٌ فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَحَبَسَهُ اللَّهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لِهَذِهِ الْبَهَائِمِ أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ فَمَا فَعَلَ مِنْهَا هَذَا فَافْعَلُوا بِهِ هَكَذَا حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبَايَةَ بْنِ رِفَاعَةَ عَنْ جَدِّهِ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَبَايَةَ عَنْ أَبِيهِ وَهَذَا أَصَحُّ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهَكَذَا رَوَاهُ شُعْبَةُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ نَحْوَ رِوَايَةِ سُفْيَانَ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1492

کتاب: شکار کے احکام ومسائل اونٹ، گائے اوربکری بدک کروحشی بن جائیں توانہیں تیرسے ماراجائے گایانہیں؟​ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرمﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، لوگوں کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ بدک کربھاگ گیا، ان کے پاس گھوڑے بھی نہ تھے، ایک آدمی نے اس کو تیرمارا سو اللہ نے اس کو روک دیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' ان چوپایوں میں جنگلی جانوروں کی طرح بھگوڑے بھی ہوتے ہیں، اس لیے اگران میں سے کوئی ایسا کرے (یعنی بدک جائے) تو اس کے ساتھ اسی طرح کرو' ۱؎ ۔ اس سند سے بھی رافع رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اس میں یہ نہیں ذکرہے کہ عبایہ نے اپنے والد سے روایت کی، یہ زیادہ صحیح ہے،۱- اہل علم کا اسی پر عمل ہے،۲- اسی طرح شعبہ نے اسے سعید بن مسروق سے سفیان کی حدیث کی طرح روایت ہے ۲؎ ۔
تشریح : ۱؎ : یعنی اس پر 'بسم اللہ' پڑھ کر تیر چلاؤ اور تیر لگ جانے پر اسے کھاؤ، کیوں کہ بھاگنے اور بے قابو ہونے کی صورت میں اس کے جسم کا ہر حصہ محل ذبح ہے، گویا یہ اس شکار کی طرح ہے جو بے قابو ہوکر بھاگتاہے۔ ۲؎ : یعنی: عبایہ کے والد کے تذکرہ کے بغیر، جیسے سفیان نے روایت کی ہے۔ ۱؎ : یعنی اس پر 'بسم اللہ' پڑھ کر تیر چلاؤ اور تیر لگ جانے پر اسے کھاؤ، کیوں کہ بھاگنے اور بے قابو ہونے کی صورت میں اس کے جسم کا ہر حصہ محل ذبح ہے، گویا یہ اس شکار کی طرح ہے جو بے قابو ہوکر بھاگتاہے۔ ۲؎ : یعنی: عبایہ کے والد کے تذکرہ کے بغیر، جیسے سفیان نے روایت کی ہے۔