أَبْوَابُ الصَّيْدِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ مَا يُؤْكَلُ مِنْ صَيْدِ الْكَلْبِ وَمَا لاَ يُؤْكَلُ صحيح حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نُرْسِلُ كِلَابًا لَنَا مُعَلَّمَةً قَالَ كُلْ مَا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَإِنْ قَتَلْنَ قَالَ وَإِنْ قَتَلْنَ مَا لَمْ يَشْرَكْهَا كَلْبٌ غَيْرُهَا قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَرْمِي بِالْمِعْرَاضِ قَالَ مَا خَزَقَ فَكُلْ وَمَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَلَا تَأْكُلْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ نَحْوَهُ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ وَسُئِلَ عَنْ الْمِعْرَاضِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
کتاب: شکار کے احکام ومسائل
کتے کا کون ساشکارکھایاجائے اورکون سا نہ کھایاجائے؟
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول!ہم لوگ اپنے سدھائے ۱؎ ہوئے کتے (شکارکے لیے) روانہ کرتے ہیں(یہ کیا ہے؟) آپ نے فرمایا:' وہ جو کچھ تمہارے لیے روک رکھیں اسے کھاؤ'، میں نے عر ض کیا : اللہ کے رسول! اگرچہ وہ شکار کو مارڈالیں؟ آپ نے فرمایا:' اگرچہ وہ (شکار کو) مارڈالیں (پھربھی حلال ہے) جب تک ان کے ساتھ دوسرا کتا شریک نہ ہو'، عدی بن حاتم کہتے ہیں: میں نے عر ض کیا:اللہ کے رسول! ہم لوگ معراض(ہتھیار کی چوڑان )سے شکارکرتے ہیں،(اس کا کیا حکم ہے؟)آپ نے فرمایا:' جو(ہتھیارکی نوک سے)پھٹ جائے اسے کھاؤ اورجو اس کے عرض (بغیردھاردارحصے یعنی چوڑان)سے مرجائے اسے مت کھاؤ۔
اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث روایت کی گئی ہے،مگراس میں ہے 'و سئل عن المعراض' (یعنی آپ سے معراض کے بارے میں پوچھاگیا)۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تشریح :
۱؎ : سدھائے ہوئے جانور کا مطلب ہے کہ جب اسے شکار پرچھوڑا جائے تودوڑتا ہوا جائے،جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آجائے۔اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوئے : (۱) سدھائے ہوئے کتے کا شکار مباح اور حلال ہے ۔ (۲) کتا مُعَلَّم ہو یعنی اسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو ۔ (۳) اس سدھائے ہوئے کتے کو شکار کے لیے بھیجا گیا ہو پس اگر وہ خود سے بلا بھیجے شکارکر لائے تو اس کا کھانا حلال نہیں، یہی جمہور علماء کا قول ہے ۔ (۴) کتے کو شکار پر بھیجتے وقت بسم اللہ کہا گیا ہو ۔ (۵) سکھائے ہوئے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شکار میں شریک نہ ہو اگر دوسرا شریک ہے تو حرمت کا پہلو غالب ہوگا اور یہ شکار حلال نہ ہوگا۔ (۶) کتا شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لیے محفوظ رکھے تب یہ شکار حلال ہوگا ورنہ نہیں ۔
۱؎ : سدھائے ہوئے جانور کا مطلب ہے کہ جب اسے شکار پرچھوڑا جائے تودوڑتا ہوا جائے،جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آجائے۔اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوئے : (۱) سدھائے ہوئے کتے کا شکار مباح اور حلال ہے ۔ (۲) کتا مُعَلَّم ہو یعنی اسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو ۔ (۳) اس سدھائے ہوئے کتے کو شکار کے لیے بھیجا گیا ہو پس اگر وہ خود سے بلا بھیجے شکارکر لائے تو اس کا کھانا حلال نہیں، یہی جمہور علماء کا قول ہے ۔ (۴) کتے کو شکار پر بھیجتے وقت بسم اللہ کہا گیا ہو ۔ (۵) سکھائے ہوئے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شکار میں شریک نہ ہو اگر دوسرا شریک ہے تو حرمت کا پہلو غالب ہوگا اور یہ شکار حلال نہ ہوگا۔ (۶) کتا شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لیے محفوظ رکھے تب یہ شکار حلال ہوگا ورنہ نہیں ۔