أَبْوَابُ الْحُدُودِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي التَّعْزِيرِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبيبٍ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُجْلَدُ فَوْقَ عَشْرِ جَلَدَاتٍ إِلَّا فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي التَّعْزِيرِ وَأَحْسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي التَّعْزِيرِ هَذَا الْحَدِيثُ قَالَ وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ ابْنُ لَهِيعَةَ عَنْ بُكَيْرٍ فَأَخْطَأَ فِيهِ وَقَالَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ خَطَأٌ وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ إِنَّمَا هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب: حدود وتعزیرات سے متعلق احکام ومسائل
تعزیر (تادیبی کاروائی) کا بیان
ابوبردہ بن نیار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا :' دس سے زیادہ کسی کو کوڑے نہ لگائے جائیں ۱؎ سوائے اس کے کہ اللہ کی حدود میں سے کوئی حد جاری کرنا ہو ' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف بکیربن اشج کی روایت سے جانتے ہیں۔ ۲-تعزیرکے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، تعزیرکے باب میں یہ حدیث سب سے اچھی ہے، ۳ - اس حدیث کو ابن لہیعہ نے بکیرسے روایت کیا ہے، لیکن ان سے اس سند میں غلطی ہوئی ہے، انہوں نے سنداس طرح بیان کی ہے : 'عن عبدالرحمن بن جابر بن عبد اللہ، عن أبیہ، عن النبی ﷺ' حالانکہ یہ غلط ہے، صحیح لیث بن سعد کی حدیث ہے ، اس کی سند اس طرح ہے: 'عن عبد الرحمن بن جابر بن عبد اللہ، عن أبی بردۃ بن نیار، عن النبی ﷺ'۔
تشریح :
۱؎ : اس حدیث سے کا صحیح محل یہ ہے کہ یہ بال بچوں اورغلام وخادم کی تادیب سے متعلق ہے کہ آدمی اپنے زیر لوگوں کو ادب سکھائے تودس کوڑے تک کی سزادے،رہ گئی دوسری وہ خطائیں جن میں شریعت نے کوئی حد مقررنہیں کی ہے جیساکہ خائن ، لٹیرے ، ڈاکواوراچکے پرخاص حدنہیں ہے تو یہ حاکم کی رائے پرمنحصرہے، اگر حاکم اس میں تعزیراً سزا دینا چاہے تودس کوڑے سے زیادہ جتناچاہے حتی کہ قتل تک سزادے سکتا ہے، رہ گئی زیرنظرحدیث تواس میں اور یہ ایسے تادیبی امور ہیں جن کا تعلق معصیت سے نہیں ہے ، مثلا والد کا اپنی چھوٹی اولاد کو بطور تأدیب سزا دینا۔
۲؎ : ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں حدود سے مراد ایسے حقوق ہیں جن کا تعلق اوامر الٰہی اور منہیات الٰہی سے ہے، چنانچہ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} (البقرة:229) اسی طرح تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَقْرَبُوهَا(البقرة:187) میں 'حدود' کا یہی مفہوم ہے۔اگربات شریعت کے اوامرونواہی کی ہوتو حاکم کو مناسب سزاؤں کے اختیارکی اجازت ہے۔
۱؎ : اس حدیث سے کا صحیح محل یہ ہے کہ یہ بال بچوں اورغلام وخادم کی تادیب سے متعلق ہے کہ آدمی اپنے زیر لوگوں کو ادب سکھائے تودس کوڑے تک کی سزادے،رہ گئی دوسری وہ خطائیں جن میں شریعت نے کوئی حد مقررنہیں کی ہے جیساکہ خائن ، لٹیرے ، ڈاکواوراچکے پرخاص حدنہیں ہے تو یہ حاکم کی رائے پرمنحصرہے، اگر حاکم اس میں تعزیراً سزا دینا چاہے تودس کوڑے سے زیادہ جتناچاہے حتی کہ قتل تک سزادے سکتا ہے، رہ گئی زیرنظرحدیث تواس میں اور یہ ایسے تادیبی امور ہیں جن کا تعلق معصیت سے نہیں ہے ، مثلا والد کا اپنی چھوٹی اولاد کو بطور تأدیب سزا دینا۔
۲؎ : ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں حدود سے مراد ایسے حقوق ہیں جن کا تعلق اوامر الٰہی اور منہیات الٰہی سے ہے، چنانچہ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللّهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ} (البقرة:229) اسی طرح تِلْكَ حُدُودُ اللّهِ فَلاَ تَقْرَبُوهَا(البقرة:187) میں 'حدود' کا یہی مفہوم ہے۔اگربات شریعت کے اوامرونواہی کی ہوتو حاکم کو مناسب سزاؤں کے اختیارکی اجازت ہے۔