جامع الترمذي - حدیث 1429

أَبْوَابُ الْحُدُودِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي دَرْءِ الْحَدِّ عَنِ الْمُعْتَرِفِ إِذَا رَجَعَ​ صحيح حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْتَرَفَ بِالزِّنَا فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ اعْتَرَفَ فَأَعْرَضَ عَنْهُ حَتَّى شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبِكَ جُنُونٌ قَالَ لَا قَالَ أَحْصَنْتَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ بِالْمُصَلَّى فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ فَرَّ فَأُدْرِكَ فَرُجِمَ حَتَّى مَاتَ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرًا وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمُعْتَرِفَ بِالزِّنَا إِذَا أَقَرَّ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ أُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَقَ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِذَا أَقَرَّ عَلَى نَفْسِهِ مَرَّةً أُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَحُجَّةُ مَنْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَحَدُهُمَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي زَنَى بِامْرَأَةِ هَذَا الْحَدِيثُ بِطُولِهِ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْدُ يَا أُنَيْسُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَإِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا وَلَمْ يَقُلْ فَإِنْ اعْتَرَفَتْ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1429

کتاب: حدود وتعزیرات سے متعلق احکام ومسائل مجرم اپنے اقرار سے پھر جائے تو اس سے حدساقط کرنے کا بیان​ جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں قبیلہ اسلم کے ایک آدمی نے آکر زنا کا اعتراف کیا ،توآپ نے اس کی طرف سے منہ پھیرلیا ، پھر اس نے اقرار کیا ، آپ نے پھرمنہ پھیر لیا، حتی کہ اس نے خودچارمرتبہ اقرارکیا، تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:' کیا تم پاگل ہو؟'اس نے کہا:نہیں ،آپ نے پوچھا : کیا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے کہاہاں: پھرآپ نے رجم کا حکم دیا، چنانچہ اسے عیدگاہ میں رجم کیاگیا، جب اسے پتھروں نے نڈھال کردیا تو وہ بھاگ کھڑا ہوا، پھر اسے پکڑا گیا اوررجم کیاگیا یہاں تک کہ وہ مرگیا ، رسول اللہ ﷺ نے اس کے حق میں کلمہ خیر کہا لیکن اس کی صلاۃِجنازہ نہیں پڑھی ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کاعمل اسی پر ہے کہ زناکا اقرارکرنے والا جب اپنے اوپرچارمرتبہ گواہی دے تو اس پر حدقائم کی جائے گی ، احمد اوراسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے،۳- بعض اہل علم کہتے ہیں: ایک مربتہ بھی کوئی زناکا اقرارکرلے گا تو اس پر حد قائم کردی جائے گی ، یہ مالک بن انس اورشافعی کا قول ہے ، اس بات کے قائلین کی دلیل ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اورزیدبن خالد کی یہ حدیث ہے کہ دوآدمی رسول اللہ ﷺ تک اپنا قضیہ لے گئے، ایک نے کہا: اللہ کے رسول! میرے بیٹے نے اس کی بیوی سے زناکیا ، یہ ایک لمبی حدیث ہے ، (آخرمیں ہے) نبی اکرمﷺ نے فرمایا:' انیس ! اس کی بیوی کے پاس جاؤ اگروہ زناکااقرارکرے تو اسے رجم کردو'، آپ نے اس حدیث میں یہ نہیں فرمایا کہ' جب چارمرتبہ اقرارکرے ' ۲؎ ۔
تشریح : ۱؎ : بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی ہے، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نفی کی روایت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ رجم والے دن آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ نہیں پڑھی، جب کہ اثبات والی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے دن آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی، اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو عمران بن حصین سے قبیلہ جہینہ کی اس عورت کے متعلق آئی ہے جس سے زنا کا عمل ہوا پھراسے رجم کیاگیا، اور نبی اکرمﷺ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: 'أتصلي عليها وقد زنت؟' کیا اس زانیہ عورت کی صلاۃِ جنازہ آپ پڑھیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: 'لقد تابت توبة لو قسمت بين سبعين لوسعتهم' یعنی اس نے جو توبہ کی ہے اسے اگر ستر افراد کے درمیان بانٹ دیا جائے تووہ ان سب کے لیے کافی ہوگی، عمران بن حصین کی یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے، دیکھئے :كتاب الحدود، باب تربص الرجم بالحبلى حتى تضع، حدیث رقم ۱۴۳۵۔ ۲؎ : اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ چار مرتبہ اقرار کی نوبت اس وقت پیش آتی ہے جب اقرار کرنے والے کی بابت عقلی وذہنی اعتبار سے کسی قسم کا اشتباہ ہوبصورت دیگر حد جاری کرنے کے لئے صرف ایک اقرار کافی ہے،پوری حدیث باب الرجم علی الثیب کے تحت آگے آرہی ہے۔ ۱؎ : بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی ہے، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نفی کی روایت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ رجم والے دن آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ نہیں پڑھی، جب کہ اثبات والی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے دن آپ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی، اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو عمران بن حصین سے قبیلہ جہینہ کی اس عورت کے متعلق آئی ہے جس سے زنا کا عمل ہوا پھراسے رجم کیاگیا، اور نبی اکرمﷺ نے اس کی صلاۃِ جنازہ پڑھی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: 'أتصلي عليها وقد زنت؟' کیا اس زانیہ عورت کی صلاۃِ جنازہ آپ پڑھیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: 'لقد تابت توبة لو قسمت بين سبعين لوسعتهم' یعنی اس نے جو توبہ کی ہے اسے اگر ستر افراد کے درمیان بانٹ دیا جائے تووہ ان سب کے لیے کافی ہوگی، عمران بن حصین کی یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے، دیکھئے :كتاب الحدود، باب تربص الرجم بالحبلى حتى تضع، حدیث رقم ۱۴۳۵۔ ۲؎ : اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ چار مرتبہ اقرار کی نوبت اس وقت پیش آتی ہے جب اقرار کرنے والے کی بابت عقلی وذہنی اعتبار سے کسی قسم کا اشتباہ ہوبصورت دیگر حد جاری کرنے کے لئے صرف ایک اقرار کافی ہے،پوری حدیث باب الرجم علی الثیب کے تحت آگے آرہی ہے۔