جامع الترمذي - حدیث 1422

أَبْوَابُ الدِّيَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الْقَسَامَةِ​ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ قَالَ يَحْيَى وَحَسِبْتُ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّهُمَا قَالَا خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلِ بْنِ زَيْدٍ وَمُحَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودِ بْنِ زَيْدٍ حَتَّى إِذَا كَانَا بِخَيْبَرَ تَفَرَّقَا فِي بَعْضِ مَا هُنَاكَ ثُمَّ إِنَّ مُحَيِّصَةَ وَجَدَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَتِيلًا قَدْ قُتِلَ فَدَفَنَهُ ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ وَحُوَيِّصَةُ بْنُ مَسْعُودٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ ذَهَبَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ لِيَتَكَلَّمَ قَبْلَ صَاحِبَيْهِ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبِّرْ لِلْكُبْرِ فَصَمَتَ وَتَكَلَّمَ صَاحِبَاهُ ثُمَّ تَكَلَّمَ مَعَهُمَا فَذَكَرُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْتَلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَهْلٍ فَقَالَ لَهُمْ أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا فَتَسْتَحِقُّونَ صَاحِبَكُمْ أَوْ قَاتِلَكُمْ قَالُوا وَكَيْفَ نَحْلِفُ وَلَمْ نَشْهَدْ قَالَ فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا قَالُوا وَكَيْفَ نَقْبَلُ أَيْمَانَ قَوْمٍ كُفَّارٍ فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَى عَقْلَهُ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ بِمَعْنَاهُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْقَسَامَةِ وَقَدْ رَأَى بَعْضُ فُقَهَاءِ الْمَدِينَةِ الْقَوَدَ بِالْقَسَامَةِ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ إِنَّ الْقَسَامَةَ لَا تُوجِبُ الْقَوَدَ وَإِنَّمَا تُوجِبُ الدِّيَةَ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1422

کتاب: دیت وقصاص کے احکام ومسائل قسامہ کا بیان​ سہل بن ابوحثمہ اوررافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: عبداللہ بن سہل بن زیداورمحیصہ بن مسعود بن زید رضی اللہ عنہما کہیں جانے کے لئے گھر سے روانہ ہوئے ، جب وہ خیبرپہنچے توالگ الگ راستوں پرہوگئے ، پھر محیصہ نے عبداللہ بن سہل کو مقتول پایا،کسی نے ان کوقتل کردیاتھا،آپ نے انہیں دفنادیا، پھروہ (یعنی راوی حدیث) حویصہ بن مسعود اور عبدالرحمن بن سہل رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے، عبدالرحمن بن سہل ان میں سب سے چھوٹے تھے ، وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے پہلے (اس معاملہ میں آپ سے) گفتگوکرناچاہتے تھے، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: 'بڑے کا لحاظ کرو،لہذا وہ خاموش ہوگئے اوران کے دونوں ساتھیوں نے گفتگوکی، پھروہ بھی ان دونوں کے ساتھ شریکِ گفتگوہو گئے، ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عبداللہ بن سہل کے قتل کاواقعہ بیان کیا، آپ نے ان سے فرمایا: ' کیا تم لوگ پچاس قسمیں کھاؤگے (کہ فلاں نے اس کو قتل کیا ہے) تاکہ تم اپنے ساتھی کے خون بہا کے مستحق ہوجاؤ (یا کہا:) قاتل کے خون کے مستحق ہوجاؤ؟' ان لوگوں نے عرض کیا: ہم قسم کیسے کھائیں جب کہ ہم حاضر نہیں تھے ؟ آپ نے فرمایا:' تویہود پچاس قسمیں کھاکرتم سے بری ہوجائیں گے'، ان لوگوں نے کہا: ہم کا فرقوم کی قسم کیسے قبول کرلیں؟ پھر رسول اللہ ﷺ نے جب یہ معاملہ دیکھاتو ان کی دیت ۱؎ خوداداکردی۔ اس سندسے بھی سہل بن ابوحثمہ اوررافع بن خدیج سے اسی طرح اسی معنی کی حدیث مروی ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- قسامہ کے سلسلہ میں بعض اہل علم کا اسی حدیث پرعمل ہے، ۳- مدینہ کے بعض فقہا ء قسامہ ۲؎ کی بناپرقصا ص درست سمجھتے ہیں ،۴- کوفہ کے بعض اہل علم اورکچھ دوسرے لوگ کہتے ہیں : قسامہ کی بناپرقصاص واجب نہیں، صرف دیت واجب ہے۔
تشریح : ۱؎ : بیت المال سے یا اپنے پاس سے ادا کردی۔ ۲؎ : قسامہ : نامعلوم قتل کی صورت میں مشتبہ افراد یا بستی والوں سے قسم لینے کو قسامہ کہا جاتا ہے۔اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص مقتول پایا جائے اور اس کے قاتل کاعلم کسی کو نہ ہو، پھر قاتل کے خلاف کوئی شہادت بھی موجود نہ ہو، تو بعض قرائن کی بنیاد پر مقتول کے اولیاء کسی متعین شخص کے خلاف دعویٰ پیش کریں کہ فلاں نے ہمارے آدمی کو قتل کیا ہے،مثلاً مقتول اور مدعی علیہ کے مابین عداوت پائی جائے ، یا مقتول مدعی علیہ کے گھر کے قریب ہو یا مقتول کاسامان کسی انسان کے پاس پایاجائے، یہ سب قرائن ہیں،تو مدعی، مدعی علیہ کے خلاف پچاس قسمیں کھاکر مقتول کے خون کا مستحق ہوجائے گا، یا اگر مدعی قسم کھانے سے گریز کریں تو مدعا علیہ قسم کھا کر خوں بہا سے بری ہوجائے گا، دونوں کے قسم نہ کھانے کی صورت میں خوں بہا بیت المال سے ادا کیا جائے گا۔ ۱؎ : بیت المال سے یا اپنے پاس سے ادا کردی۔ ۲؎ : قسامہ : نامعلوم قتل کی صورت میں مشتبہ افراد یا بستی والوں سے قسم لینے کو قسامہ کہا جاتا ہے۔اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص مقتول پایا جائے اور اس کے قاتل کاعلم کسی کو نہ ہو، پھر قاتل کے خلاف کوئی شہادت بھی موجود نہ ہو، تو بعض قرائن کی بنیاد پر مقتول کے اولیاء کسی متعین شخص کے خلاف دعویٰ پیش کریں کہ فلاں نے ہمارے آدمی کو قتل کیا ہے،مثلاً مقتول اور مدعی علیہ کے مابین عداوت پائی جائے ، یا مقتول مدعی علیہ کے گھر کے قریب ہو یا مقتول کاسامان کسی انسان کے پاس پایاجائے، یہ سب قرائن ہیں،تو مدعی، مدعی علیہ کے خلاف پچاس قسمیں کھاکر مقتول کے خون کا مستحق ہوجائے گا، یا اگر مدعی قسم کھانے سے گریز کریں تو مدعا علیہ قسم کھا کر خوں بہا سے بری ہوجائے گا، دونوں کے قسم نہ کھانے کی صورت میں خوں بہا بیت المال سے ادا کیا جائے گا۔