أَبْوَابُ الدِّيَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَابُ مَا جَاءَ لاَ يُقْتَلُ بِكَافِرٍ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَنْبَأَنَا مُطَرِّفٌ عَنْ الشَّعْبِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو جُحَيْفَةَ قَالَ قُلْتُ لِعَلِيٍّ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَلْ عِنْدَكُمْ سَوْدَاءُ فِي بَيْضَاءَ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ قَالَ لَا وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ مَا عَلِمْتُهُ إِلَّا فَهْمًا يُعْطِيهِ اللَّهُ رَجُلًا فِي الْقُرْآنِ وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ قُلْتُ وَمَا فِي الصَّحِيفَةِ قَالَ الْعَقْلُ وَفِكَاكُ الْأَسِيرِ وَأَنْ لَا يُقْتَلَ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَقَ قَالُوا لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ و قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يُقْتَلُ الْمُسْلِمُ بِالْمُعَاهِدِ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ
کتاب: دیت وقصاص کے احکام ومسائل
مسلمان کافرکے بدلے قتل نہیں کیاجائے گا
ابوجحیفہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھاکیا ۱ ؎ : امیرالمومنین ! کیاآپ کے پاس کاغذمیں لکھی ہوئی کوئی ایسی تحریرہے جو قرآن میں نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں،اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اورجان کو پیدا کیا! میں سوائے اس فہم وبصیرت کے جسے اللہ تعالیٰ قرآن کے سلسلہ میں آدمی کو نواز تا ہے اور اس صحیفہ میں موجود چیز کے کچھ نہیں جانتا ، میں نے پوچھا: صحیفہ میں کیا ہے؟ کہا: اس میں دیت ، قید یوں کے آزادکرنے کا ذکراورآپ کا یہ فرمان ہے : 'مومن کافرکے بدلے قتل نہیں کیاجائے گا ' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- علی رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے،۳- بعض اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری ، مالک بن انس ، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں : مومن کافر کے بدلے نہیں قتل کیا جائے گا ،۴- اوربعض اہل علم کہتے ہیں : ذمی کے بدلے بطور قصاص مسلمان کوقتل کیا جائے گا، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔
تشریح :
۱؎ : علی رضی اللہ عنہ سے ابو جحیفہ کے سوال کرنے کی وجہ سے بعض شیعہ کہتے ہیں کہ اہل بیت بالخصوص علی رضی اللہ عنہ کے پاس نبی اکرم ﷺ کی بتائی ہوئی کچھ ایسی باتیں ہیں جودوسروں کو معلوم نہیں، کچھ اسی طرح کا سوال علی رضی اللہ عنہ سے قیس بن عبادہ اور اشتر نخعی نے بھی کیاتھا، اس کا ذکر سنن نسائی میں ہے۔
۲؎ : رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم عام ہے ہرکافر کے لیے خواہ حربی ہو یاذمی ، لہذا مومن کافر کے بدلے قصاصاً قتل نہیں کیاجائے گا، ایک حدیث میں یہ آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذمی کے بدلے ایک مسلمان کے قتل کا حکم دیا، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، اس کا صحیح ہونا اگر ثابت بھی ہوجائے تو یہ منسوخ ہوگی اور 'لايقتل مسلم بكافر' والی روایت اس کے لیے ناسخ ہوگی، کیوں کہ آپ کا یہ فرمان فتح مکہ کے سال کا ہے جب کہ ذمی والی روایت اس سے پہلے کی ہے۔
۱؎ : علی رضی اللہ عنہ سے ابو جحیفہ کے سوال کرنے کی وجہ سے بعض شیعہ کہتے ہیں کہ اہل بیت بالخصوص علی رضی اللہ عنہ کے پاس نبی اکرم ﷺ کی بتائی ہوئی کچھ ایسی باتیں ہیں جودوسروں کو معلوم نہیں، کچھ اسی طرح کا سوال علی رضی اللہ عنہ سے قیس بن عبادہ اور اشتر نخعی نے بھی کیاتھا، اس کا ذکر سنن نسائی میں ہے۔
۲؎ : رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم عام ہے ہرکافر کے لیے خواہ حربی ہو یاذمی ، لہذا مومن کافر کے بدلے قصاصاً قتل نہیں کیاجائے گا، ایک حدیث میں یہ آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ذمی کے بدلے ایک مسلمان کے قتل کا حکم دیا، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، اس کا صحیح ہونا اگر ثابت بھی ہوجائے تو یہ منسوخ ہوگی اور 'لايقتل مسلم بكافر' والی روایت اس کے لیے ناسخ ہوگی، کیوں کہ آپ کا یہ فرمان فتح مکہ کے سال کا ہے جب کہ ذمی والی روایت اس سے پہلے کی ہے۔