جامع الترمذي - حدیث 1410

أَبْوَابُ الدِّيَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي دِيَةِ الْجَنِينِ​ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَنِينِ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ فَقَالَ الَّذِي قُضِيَ عَلَيْهِ أَيُعْطَى مَنْ لَا شَرِبَ وَلَا أَكَلَ وَلَا صَاحَ فَاسْتَهَلَّ فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلَّ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ هَذَا لَيَقُولُ بِقَوْلِ شَاعِرٍ بَلْ فِيهِ غُرَّةٌ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ وَفِي الْبَاب عَنْ حَمَلِ بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ و قَالَ بَعْضُهُمْ الْغُرَّةُ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ أَوْ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ و قَالَ بَعْضُهُمْ أَوْ فَرَسٌ أَوْ بَغْلٌ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 1410

کتاب: دیت وقصاص کے احکام ومسائل حمل ( ماں کے پیٹ میں موجود بچہ)کی دیت کا بیان​ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جنین( حمل) کی دیت میں غرہ یعنی غلام یالونڈی (دینے) کا فیصلہ کیا، جس کے خلاف فیصلہ کیا گیا تھا وہ کہنے لگا: کیا ایسے کی دیت دی جائے گی، جس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا، نہ چیخا، نہ آواز نکالی، اس طرح کا خون توضائع اورباطل ہوجاتاہے، (یہ سن کر) نبی اکرمﷺ نے فرمایا :' یہ شاعروں والی بات کررہا ہے ۱؎ ،جنین (حمل گرادینے) کی دیت میں غرہ یعنی غلام یا لونڈی دینا ہے' ۲؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں حمل بن مالک بن نابغہ اورمغیرہ بن شعبہ سے احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- غرہ کی تفسیربعض اہل علم نے ، غلام ، لونڈی یاپانچ سودرہم سے کی ہے ،۵- اوربعض اہل علم کہتے ہیں: غرہ سے مراد گھوڑایاخچرہے ۔
تشریح : ۱؎ : چونکہ اس آدمی نے ایک شرعی حکم کورد کرنے اور باطل کو ثابت کرنے کے لیے بتکلف قافیہ دار اور مسجع بات کہی، اسی لیے نبی اکرمﷺنے اس کی مذمت کی، اگر مسجع کلام سے مقصود یہ نہ ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں، رسول اللہ ﷺ کا بعض کلام مسجع ملتا ہے، یہ اور بات ہے کہ ایسا آپ کی زبان مبارک سے اتفاقاً بلاقصد و ارادہ نکلاہے۔ ۲؎ : یہ اس صورت میں ہوگا جب بچہ پیٹ سے مردہ نکلے اور اگر زندہ پیدا ہوپھر پیٹ میں پہنچنے والی مار کے اثر سے وہ مرجائے تو اس میں دیت یا قصاص واجب ہوگا۔ ۱؎ : چونکہ اس آدمی نے ایک شرعی حکم کورد کرنے اور باطل کو ثابت کرنے کے لیے بتکلف قافیہ دار اور مسجع بات کہی، اسی لیے نبی اکرمﷺنے اس کی مذمت کی، اگر مسجع کلام سے مقصود یہ نہ ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں، رسول اللہ ﷺ کا بعض کلام مسجع ملتا ہے، یہ اور بات ہے کہ ایسا آپ کی زبان مبارک سے اتفاقاً بلاقصد و ارادہ نکلاہے۔ ۲؎ : یہ اس صورت میں ہوگا جب بچہ پیٹ سے مردہ نکلے اور اگر زندہ پیدا ہوپھر پیٹ میں پہنچنے والی مار کے اثر سے وہ مرجائے تو اس میں دیت یا قصاص واجب ہوگا۔