جامع الترمذي - حدیث 141

أَبْوَابُ الطَّهَارَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الْجُنُبِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَعُودَ تَوَضَّأَ​ صحيح حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَتَى أَحَدُكُمْ أَهْلَهُ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يَعُودَ فَلْيَتَوَضَّأْ بَيْنَهُمَا وُضُوءًا قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ قَوْلُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ و قَالَ بِهِ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا إِذَا جَامَعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يَعُودَ فَلْيَتَوَضَّأْ قَبْلَ أَنْ يَعُودَ وَأَبُو الْمُتَوَكِّلِ اسْمُهُ عَلِيُّ بْنُ دَاوُدَ وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ اسْمُهُ سَعْدُ بْنُ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ

ترجمہ جامع ترمذی - حدیث 141

کتاب: طہارت کے احکام ومسائل بیوی سے دوبارہ صحبت کرنے کا ارادہ کرنے پر جنبی وضو کرلے​ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :' جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے صحبت کرے پھر وہ دوبارہ صحبت کرنا چاہے تو ان دونوں کے درمیان وضو کرلے' ۱؎ ۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں عمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت آئی ہے، ۲- ابوسعید کی حدیث حسن صحیح ہے، ۳-عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے ، اہل علم میں سے بہت سے لوگوں نے یہی کہاہے کہ جب آدمی اپنی بیوی سے جماع کرے پھر دوبارہ جماع کرنا چاہے تو جماع سے پہلے دوبارہ وضو کرے۔
تشریح : ۱؎ : بعض اہل علم نے اسے وضو لغوی پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے مراد شرم گاہ دھونا ہے، لیکن ابن خزیمہ کی روایت سے جس میں'فليتوضأ وضوئه للصلاة' آیاہے اس کی نفی ہوتی ہے،صحیح یہی ہے کہ اس سے وضو لغوی نہیں بلکہ وضو شرعی مراد ہے، جمہورنے 'فليتوضأ'میں امرکے صیغے کے استحباب کے لیے مانا ہے، لیکن ظاہریہ کے نزدیک وجوب کا صیغہ ہے، جمہورکی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث ہے جس میں ہے ' كان للنبي ﷺ يجامع ثم يعودو لايتوضأ' نیزصحیح ابن خزیمہ میں اس حدیث میں 'فإنه أنشط للعود' کا ٹکڑاواردہے اس سے بھی اس بات پر دلالت ہوتی ہے کہ امرکا صیغہ یہاں استحباب کے لیے ہے نہ کہ وجوب کے لیے۔ ۱؎ : بعض اہل علم نے اسے وضو لغوی پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے مراد شرم گاہ دھونا ہے، لیکن ابن خزیمہ کی روایت سے جس میں'فليتوضأ وضوئه للصلاة' آیاہے اس کی نفی ہوتی ہے،صحیح یہی ہے کہ اس سے وضو لغوی نہیں بلکہ وضو شرعی مراد ہے، جمہورنے 'فليتوضأ'میں امرکے صیغے کے استحباب کے لیے مانا ہے، لیکن ظاہریہ کے نزدیک وجوب کا صیغہ ہے، جمہورکی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث ہے جس میں ہے ' كان للنبي ﷺ يجامع ثم يعودو لايتوضأ' نیزصحیح ابن خزیمہ میں اس حدیث میں 'فإنه أنشط للعود' کا ٹکڑاواردہے اس سے بھی اس بات پر دلالت ہوتی ہے کہ امرکا صیغہ یہاں استحباب کے لیے ہے نہ کہ وجوب کے لیے۔