أَبْوَابُ الدِّيَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَقْتُلُ ابْنَهُ يُقَادُ مِنْهُ أَمْ لاَ ضعيف حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ حَدَّثَنَا إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشَمٍ قَالَ حَضَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقِيدُ الْأَبَ مِنْ ابْنِهِ وَلَا يُقِيدُ الِابْنَ مِنْ أَبِيهِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُرَاقَةَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِصَحِيحٍ رَوَاهُ إِسْمَعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ الْمُثَنَّى بْنِ الصَّبَّاحِ وَالْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ مُرْسَلًا وَهَذَا حَدِيثٌ فِيهِ اضْطِرَابٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْأَبَ إِذَا قَتَلَ ابْنَهُ لَا يُقْتَلُ بِهِ وَإِذَا قَذَفَ ابْنَهُ لَا يُحَدُّ
کتاب: دیت وقصاص کے احکام ومسائل
آدمی اپنے بیٹے کوقتل کردے توکیا قصاص لیا جائے گا یانہیں؟
سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا ،(تودیکھا)کہ آپ باپ کو بیٹے سے قصاص دلواتے تھے اوربیٹے کو باپ سے قصاص نہیں دلواتے تھے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سراقہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ اس کی سند صحیح نہیں ہے ، اسے اسماعیل بن عیاش نے مثنیٰ بن صباح سے روایت کی ہے اورمثنیٰ بن صباح حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔ ۲- اس حدیث کو ابوخالداُحمرنے بطریق: 'حجاج بن أرطاۃ، عن عمرو بن شعیب، عن أبیہ، عن جدہ، عن عمر رضی اللہ عنہ، عن النبی ﷺ' روایت کیا ہے، ۴- یہ حدیث عمروبن شعیب سے مرسلاً بھی مروی ہے، اس حدیث میں اضطراب ہے، ۴- اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ باپ جب اپنے بیٹے کو قتل کردے تو بدلے میں (قصاصاً) اسے قتل نہیں کیاجائے گااورجب باپ اپنے بیٹے پر(زناکی)تہمت لگائے تو اس پر حد قذف نافذ نہیں ہوگی۔
تشریح :
۱؎ : علماء کہتے ہیں کہ باپ اور بیٹے کے مابین تفریق کا سبب یہ ہے کہ باپ کے دل میں اولاد کی محبت کسی دنیوی منفعت کی لالچ کے بغیر ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ باپ کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد باقی زندہ اورخوش رہے، جب کہ اولاد کے دل میں پائی جانے والی محبت کا تعلق (الاما شاء اللہ) صرف دنیاوی منفعت سے ہے۔ (یہ حدیث گرچہ سنداً ضعیف ہے مگر دیگر طرق سے مسئلہ ثابت ہے)
نوٹ:(سند میں 'المثنی بن صباح' ضعیف ہیں، اخیرعمر میں مختلط ہوگئے تھے، نیز حدیث میں بہت اضطراب ہے)
۱؎ : علماء کہتے ہیں کہ باپ اور بیٹے کے مابین تفریق کا سبب یہ ہے کہ باپ کے دل میں اولاد کی محبت کسی دنیوی منفعت کی لالچ کے بغیر ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ باپ کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد باقی زندہ اورخوش رہے، جب کہ اولاد کے دل میں پائی جانے والی محبت کا تعلق (الاما شاء اللہ) صرف دنیاوی منفعت سے ہے۔ (یہ حدیث گرچہ سنداً ضعیف ہے مگر دیگر طرق سے مسئلہ ثابت ہے)
نوٹ:(سند میں 'المثنی بن صباح' ضعیف ہیں، اخیرعمر میں مختلط ہوگئے تھے، نیز حدیث میں بہت اضطراب ہے)